Turkish scholarship ترکش سکالر شپ
![Image](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhoCPyFVJ2S95OtVWAncWI99tqlpvabXgoDrGyzubpr1_gcc54wCaLRYtGrcvNdJbohDUgLk-sBgPXMzrYhSRx9tcDalIMklZZOIi6nDuYe4y34sz8Xiy3YapVTsHD54VwkoE4pj4IH_QPSJUqhiJNl4TYD94KHw_mMUBW9njopvFw47cTxGDh_yijP/w289-h189/indir.png)
https://www.youtube.com/watch?v=lzebwrqb_Kk on the link
کوہستان کے شہیدو۔۔۔۔کاش تُم افغانی ہوتے!
پہلا منظر
آج الفاط گنگ ہیں، اور جملے رُوٹھ گئے ہیں، سونا
چاہتاہوں لیکن آنکھوں کے سامنے کوہستان کی وہ دلخراش ویڈیو آجاتی ہے، ایک دو
نہیں پانچ کڑیل جوان سیلاب میں پھنسے دہائی
دے رہے ہیں، چیخ رہے چلارہے ہیں، عزیز واقارب ، اور اہل علاقہ علاقہ جمع
ہیں، پانچ گھنٹے گُذر جاتے ہیں! نہ ریسکیو
ٹیم نہ کوئی ہیلی کاپٹر، سیلابی ریلہ آتا ہے اور سینکڑوں انسانوں کے سامنے چار لاچار جوانون کو کھا جاتا ہے!
حالانکہ اس ملک کی
آرمی کے پاس سینکڑوں ہیلی کاپٹر موجود ہیں!
خُود کے پی کے کے وزیر اعلی کے پاس ہیلی کاپٹر موجود ہے، جو سابق وزیر
اعظم کے سیر سپاٹے کیلئے استعمال ہوسکتا
ہے، گراونڈ خُشک کرنے استعمال ہوسکتا ہے، لیکن
بلڈی سویلین کی جان بچانے کیلئے
نہیں!
سوچئے اگر اِن چار
میں سے ایک بھی کسی
جرنیل، کسی برگیڈئیر، کسی جج، کسی
سیاستدان کا بھائی بیٹا تو درکنار رشتہ
دار بھی ہوتا تو کیا یہی منظر ہوتا؟؟
ہر گز نہیں!
دُوسرا منظر
لُٹا پِٹا ملک افغانستان ہے، نصف صدی تک اس کی سرزمین پر آتش وآہن کی فصلیں اُگیں، اب جاکر تھوڑا سا امن نصیب ہُوا ہے۔ دُنیا جن کو ان پڑھ، دیہاتی ، مُلاں نہ جانے کیا کیا القابات سے نوازتی ہے، اُ ن کے پاس نہ کوئی منظم فوج ہے نہ ایٹم بم!، بحریہ ٹاؤن نہ ڈی ایچ اے! ان کی اکثریت کو انگلش بھی نہیں آتی! لیکن پھر سیلاب میں گھرے ایک شخص کی اطلاع ملتے ہی اِ ن " مولویوں" کی ائیر فورس حرکت میں آتی ہے، اور کامیاب ریسکیو آپریشن کے ذریعہ سیلاب میں پھنسے شخص کی جان بچائی جاتی ہے!
کیا اتنی بڑی حسی پر صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟؟
جی بالکل ! ایسے ہی جیسے مری میں برف میں پھنس کر شہید ہونے والے، ساہیوال میں گولیوں کا نشانہ بننے والے مظلوموں کے قاتلوں کے خلاف ہوئی تھی!
اے میرے غریب بھائیو!
مُجھے تو یہ سمجھ آرہا ہے کہ یہ مُلک میں اور آپ کیلئے نہیں بنا تھا، اِس لئے میری اور آپ کی جان بچانا بھلا کسی کی ترجیحات میں کیوں شامل ہوگا؟
اِس لئے کسی سے شکوہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور نہ ہی میرے پاس ایسے الفاظ ہیں جو آپ کو تسلی کیلئے لکھ سکوں، بس اتنی تمنا کر سکتاہوں کہ کاش تُم کوہستانی نہیں بلکہ افغانی ہوتے!
یا اللہ !
یہ حالات دیکھ کر عام انسان احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے... سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں غریب طبقے کی کوئی اہمیت نہیں، ملک کا سارا مال و ذر صرف رئیسوں اور عیاش پرستوں کے لیے وقف ہے
ReplyDeleteAfsoos ka maqam hai sir
ReplyDeleteبالکل۔ بس بے بسی کی انتہا ہے
Delete