Turkish scholarship ترکش سکالر شپ
![Image](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhoCPyFVJ2S95OtVWAncWI99tqlpvabXgoDrGyzubpr1_gcc54wCaLRYtGrcvNdJbohDUgLk-sBgPXMzrYhSRx9tcDalIMklZZOIi6nDuYe4y34sz8Xiy3YapVTsHD54VwkoE4pj4IH_QPSJUqhiJNl4TYD94KHw_mMUBW9njopvFw47cTxGDh_yijP/w289-h189/indir.png)
سیلاب ۔۔۔ ضروری پہلوؤں کو نظر انداز مت کیجئے!
سیلاب کی وجہ وطن عزیز میں بہت بڑے پیمانے پر
تباہی ہُوئی ہے، جانی مالی نقصانات کی تفصیلات پڑھ کر اور ویڈیوز دیکھ کر رونگھنٹے
کھڑے ہوجاتے ہیں، دُوسری طرف اہل وطن نے جِس کُشادہ دِلی سے سیلاب زدگان کی خدمت کی
ہے، بالخصوص مذہبی جماعتوں اور افراد مثلا الخدمت، انصار الاسلام، بیت السلام سیمت
اور کئی گُمنام ہیروز نے دُکھی انسانیت کی خدمت میں اپنا کردار ادا کیا ہے، وہ آبَ
زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اللہ پاک تمام شہداء کی مغفرت فرمائے، پسماندگان کو صبر
جمیل عطافرمائے اور انسانوں کی خدمت کرنے والے ان ہیروز کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
البتہ اس سلسلہ میں چند اہم پہلوؤں سے نظر نہیں ہٹنی چاہئے
١۔ غفلت اور
مسمنیجمنٹ( Neglect &
mismanagement)
ہمارے ہاں ہر چیز کو تقدیر کے کھاتہ میں ڈالنے اور دینی عنوان دے کر اپنی غفلت، نالائقی اور مسمنیجمنٹ کو چُھپانے کا رواج بن چُکا ہے، اِس لئے ہم ایک مُصیبت کے بعد دُوسری مُصیبت تک انتظار کرتے رہتے ہیں، اور ایسا عنوان دیا جاتاہے کہ عوام کی نظر حکمرانوں کی نا اہلی سے ہٹ جاتی ہے اور اِسے قسمت کا لکھا ہُوا سمجھ کر قبول کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ مثلا سیلاب کی زد میں آنیوالے کئی مکانات اور ہوٹلوں کے بارے یہ کہا اور لکھا جارہاہے کہ یہ جگہیں اِس سے قبل بھی نشانہ بنتی رہیں، یا یہ پانی کی گُذرگاہ تھی وغیرہ
اب سوال یہ ہے کہ جب یہ جگہیں پانی کی گُذرگاہ تھی تو پھر
وہاں پر دوبارہ سے اتنی بڑی عمارت بنانے کی اجازت کس نے اور کیسے دی؟
٢۔ برساتی نالوں
کی بندش
کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں کے بارے یہ کہا
جاتا ہے کہ با اثر افراد نے وہاں پر مکان/ ہوٹل یا ایسی کوئی چیز تعمیر کی ہے، اس
لئے پانی کے دباؤ کی وجہ سے یہ نقصان ہوگیا۔ ( اس سلسلہ سندھ کے ایک وڈیرہ کی زمینوں
کی ویڈیو بھی ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی)
سوال یہ ہے کہ اِن با اثر افراد کا کہیں کوئی نام، پتہ لیا
جائے گا؟ کوئی ان سے پُوچھنے والا ہوگا؟
کوئی ادیب، کوئی لکھاری، کوئی صحافی کوئی خطیب ، کوئی جج کوئی حاکم؟؟
٣۔ ڈیم ، مضبوط بند،
پُل اور دیگر انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی
آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے ہرسال تباہی ہوتی ہے، پُلوں اور بند کی تعمیر یا مکمل ہی نہیں ہوتی اور ہوبھی جائے تو مٹیریل اتنا ناقص استعمال ہوتا ہے کہ وہ کسی دم کے مہمان بن کر رہ جاتے ہیں!
لیکن سوال یہ ہے کہ ڈیم بنانا ، بند باندھنا اور اچھا مٹیریل استعمال کرنا بھی بیچارے الخدمت والوں کی ذمہ داری ہے یا
انصارالاسلام اور بیت السلام کا کام؟
جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سندھ یہ علاقہ ہر دفعہ قُدرتی آفات میں شدید متاثر ہوجاتے ہیں، جِس سے کئی زندیاں ضائع ہوجاتی ہیں، مالی نقصانات ہوجاتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ پنجاب میں حکومت بنانے والی ہر جماعت جنوبی پنجاب کے حقوق اور وفاق میں آنے والی ہر حکومت بلوچستان کی تباہی اور پسماندگی کا رونا روتی ہے، اور اِسی عنوان سے یہاں کے سیاسی نمائندوں کو اپنے ساتھ ملاتی ہے۔ کبھی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے
کا وعدہ تو کبھی بلوچستان کی خوشحالی کا نعرہ۔۔۔ لیکن آج تک زمین پر کتنے منصوبے موجود
ہیں؟
٤۔ ذمہ داروں کی
غفلت
ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ مری میں برف کی
وجہ سے کئی گھر اُجڑ گئے، فیڈرل گورنمنٹ، لوکل گورنمنٹ ، دفاعی ادارے اور سیاسی
نمائندگان کوئی بھی مدد کیلئے نہیں آیا، کئی جانیں چلی گئیں، گھر اُجڑ گئے، کُچھ دِن کیلئے شور اُٹھا، دُعائیں ہوئیں، افسوس کا اظہار کیا گیا، لیکن پھر خموشی! اِس پہ کسی ذمہ
دار سے پُوچھا گیا کہ بھائی آپ اُس وقت کہاں تھے؟
اب کی بار کوہستان دوبیر نالہ میں پھنسے پانچ نوجوان زندگی
کی بھیک مانگ رہے تھے، پورا علاقہ اکھٹا ہوچکا تھا، وفاقی، صوبائی حکومت اور دفاعی
اداروں کو اتنی توفیق نہیں ہُوئی کہ ایک ہیلی کاپٹر بھیج سکیں۔
کیا وزیرِاعظم میاں شہباز شریف، عمران خان، جنرل قمر باجوہ،
اور جج صاحبان ذمہ داران سے پُوچھنے کی زحمت کریں گے کہ بھائی لوگو آخر آپ کو تنخواہ اور مراعات کس چیز کی دی جارہی ہیں ؟
کیا ہمارا سسٹم اتنا کمزور ہے کہ پانچ گھنٹے تک پانچ انسانوں کو ریسکیو کرنے کی صلاحیت بھی ہمارے پاس نہیں؟؟؟
کیا علماء کرام ، واعظینِ شہرمنبرسے، صحافی اپنے قلم سے اور
ادیب اپنی زبان سے یہ سوال اُٹھائیں گے کہ اِن پانچ معصوموں کا قاتل کون ہے؟؟
یا اِس کو بھی " عذاب الہی" کا عنوان دیکر "
تقدیر کے کھاتہ میں ڈال کر مُطمئن ہوجا ناہے؟
5۔موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باقتور ممالک کا بویا ہُوا کمزور ممالک کو کاٹنا پڑتا ہے، لیکن اِص کے باؤجود ہمارے پہاڑ گنجے ہوتے جارہے ہیں، پھل دار درختوں کی جگہ لوہا اور سمینٹ اُگ رہا ہے، اِس لئے جب فطرت ردً،عمل دینے پر آتی ہے تو پھر ہم ہاتھ ملتے رہتے ہیں۔ اِس لئے کثرت سے درخت لگائیے، جنگلوں کو کاٹ کر سوسائٹیاں بنانےپر پابندی عائد کیجئے۔
کل جب ٹی وی پر تحریک انصاف کے پُرجوش حامی حضرت مولنا طارق جمیل دعاکراتے ہُوئے آہ وفغاں فرمارہے تھے، کاش وہ عمران خان صاحب سے پُوچھنے کی جُرات فرماتے کہ خان صاحب آپ تو مدینہ کی ریاست کے دعویدار تھے، جہاں دریائے فُرات کے کنارے مرنے والے کُتے کی ذمہ داری بھی خلیفہ وقت پر ہُوا کرتی تھی، لیکن آپ کی ریاست میں تو صوبائی دارالحکومت سے تھوڑے سے فاصلے پر چار انسان پورے پانچ گھنٹے تک زندگی کی بھیک مانگتے رہے، سوشل میڈیا چیختا رہا، لیکن آپ کی گورنمنٹ نے کیا کیا؟؟
کیا ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ یا جیسے سانحہ مری، سانحہ ساہیوال کی طرح اس پر بھی " استغفار" ہی کرنا ہوگا؟؟
کاش مولنا اپنی دُعا میں اتنا اضافہ کرلیتے : یا اللہ کوہستان میں زندگی کی بھیک مانگتے مانگتے سیلاب کی موجوں کی نذر ہونے یا ملک کے دیگر حصوں میں مرنے والوں میں کے خُون کا بدلہ غفلت برتنے والے حکمرانوں، انتظامیہ اور اداروں سے لیکر پیسے لیکر کام نہ کرنے والے یا ناقص مٹیریل استعمال کرنے والے ٹھیکدار تک، رشوت لیکر پروجیکٹ پاس کرانے والے انجنئیرز سے لیکر جیب گرم کرکے چیک کیش کرانے والے منیجر تک ، جو جو اِس میں ملوث ہیں، اُن سب سب لیجئے، اور اُن سب کو نشانِ عبرت بنا!
یاد رہے کہ سُنن الہیہ ( cosmic laws/universal norms) کا تقاضا یہ ہے کہ اسباب ہم اختیار کریں، اپنی استطاعت کے مُطابق اچھے سے اچھا سسٹم بنائیں، اِس کے بعد نتیجہ اللہ کے حوالہ کریں، اِس لئے قُدرتی آفات اللہ تعالی کا امتحان ہیں، یقینا توبہ واستغفار کرنا بہت لازمی ہے، لیکن اپنے حصے کا کام کئے بغیر، صرف - شِنا فریز " شل کُولو تسبیح- ( یعنی سو دانوں والی تسبیح پھیرکر ) استغفار کرنے سے ثواب تو مل سکتا ہے، لیکن مُصیبت نہیں ٹل سکتی ۔ کیونکہ یہ قانونِ قُدرت کے خلاف ہے) اس لئے سیلاب کو صرف عذاب الہی قرار دیکر استغفار کی تلقین پر اکتفا کرنا، یا لمبی لمبی دُعائیں کر کے مُطمئن ہوجانا، یا تقدیر کا لکھا ہُوا مان کر صبر کرنا ، یا اہلِ قلم کا اپنے ہم وطنوں کی سخاوت ، اداروں کی خدمت کے قصیدے پڑھنے کے بعد خاموش ہوجانا کسی طرح کافی نہیں، بلکہ ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا پڑے گا اور اپنی ڈیوٹی پوری دینی پڑے گی ! اور غفلت کے مرتکب افراد اور اداروں سے پُوچھنا پڑے گا کہ آپ کِس مرض کی دوا ہیں؟
ورنہ پھر اگلی مُصیبت کا انتظار کیجئے
یا وُسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذہبِ مردانِ خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہبِ مُلّا و جمادات و نباتات
Comments
Post a Comment