25 August 2020
مخدومنا المکرم مفتی اعظم پاکستان محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہ نے وہی موقف پیش فرما یا جو 1400 سال سے جمہور اہل فتوی کا رہاہے۔ کوئی بات نئی نہ تھی سوائے اس کے کہ حضرت نے سمجھانے کیلئے انداز ذرا عوامی اختیار فرمایا، اس پر سوشل میڈیا پر چند کوتاہ قدوں نے اپنا قد اونچا کرنے کیلئے وہ ہاہاکار مچائی کہ الامان الحفیظ۔
اور اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس ناپسندیدہ عمل میں زیادہ تر وہ لوگ ملوث ہیں جن کا تعلق مدارس دینیہ سے ہے، جن کی طرف اپنی نسبت کرتے ہوئےمجھے شکر اور فخر دونوں کا احساس ہوتاہے۔
بد قسمتی سے ٹھوس علمی مسائل میں سطحی جذباتیت اور اپنی مرضی کے مطابق حق سننے کی عادت نے مدارس کے طلبہ جن کا کل اثاثہ احترام، ، ادب اور فرق مراتب تھا ، کو چھین لیاہے بلکہ اولی ثانیہ بلکہ صرف حافظ کی سند لینے والوں کو بھی چوٹی کے اہل علم کے گریبانوں سے کھیلنے اور دستاریں اچھالنے کی عادت ڈالی ہے۔ایسے لوگ جن کا مبلغ میری طرح بہت ہی کم، اکثر تو کسی مدرسہ کے باقاعدہ سند یافتہ بھی نہیں ، کو جب سوشل میڈیا پر آفتاب وماہتاب علم پر غوں غوں کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو دل بھر آتا ہے۔
مجھے ذاتی طور پر کئی ایسے '' نابغوں'' کو بھگتنے کا موقع ملا ہے کہ جو ابتدائی درجات کے بعد سلسلہ تعلیم کو خیر باد کہ کر'' امامت اور خطابت'' کے منصب پر فائز ہوچکے تھے، لیکن حساس مسائل پر نہ صرف'' محققانہ رائے'' رکھتے ہیں بلکہ چوٹی کے اہل علم کی تغلیط، بے ادبی سمیت سب کچھ کرجاتےہیں۔
نانوتوی رح کے قافلہ پر پسماندگی کا یہ وقت بھی آئے گا کبھی سوچا نہ تھا۔
دوسری طرف یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے بعض دریدہ دھن مصنفین اور بیہودہ ذاکروں نے بھی اہل اسلام کو اپنے آپ سے نفرت دلانے مین کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔ رہی سہی کسر پڑوسی ممالک کے متعصبانہ رویہ اور نامعقول پالیسیوں نے پوری کردی ہے۔ معتدل شیعہ حضرات کو ایسے دریدہ دہن ذاکروں اور آشفتہ قلم مولفین سے جان چھڑانی ہوگی، جن کے قلم اور زبان سے ہمیشہ ایسی چیزیں نکلی ہیں جن کو غلاظت کہتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ نام اور کتابیں معلوم ہیں دوہرانے کی ضرورت نہیں۔ بایں ہمہ شیعہ سنی اختلاف کوئی نیا نہیں، اور نہ ہی اثناعشری یا رافضی طرح کے نام نہ سنے ہوئے، امام شمس الدین ذھبی جیسے محقق اور علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد ( اور کئی مسائل میں امام ذھبی پر اپنے استاذ کا رنگ صاف نظر آتا ہے) صحآح ستہ کے بعض رواہ کا تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں: رافضی خبیث''۔ لیکن صاحب کتاب نے حدیث بھی لی ہے،اور حدیث صحیح اور مقبول بھی ہے۔ اس لئے ناموں اور القاب مین الجھانے کی کوشش ایک Fantasy کے سوا کچھ نہیں۔ اس لئے تکفیر جیسے حساس مسائل پر بحث کرنے کیلئے اس طرح کے سہارے مضبوط نہیں ہوتے۔ جمہور اہل علم روز اول سے یہی کہتے اور لکھتے چلے آئے ہیں:
وَأَنْتَ خَبِيرٌ بِأَنَّ الصَّحِيحَ فِي الْمُعْتَزِلَةِ وَالرَّافِضَةِ وَغَيْرِهِمْ مِنْ الْمُبْتَدَعَةِ أَنَّهُ لَا يُحْكَمُ بِكُفْرِهِمْ وَإِنْ سَبُّوا الصَّحَابَةَ أَوْ اسْتَحَلُّوا قَتْلَنَا بِشُبْهَةِ دَلِيلٍ كَالْخَوَارِجِ الَّذِينَ اسْتَحَلُّوا قَتْلَ الصَّحَابَةِ، بِخِلَافِ الْغُلَاةِ مِنْهُمْ كَالْقَائِلِينَ بِالنُّبُوَّةِ لِعَلِيٍّ وَالْقَاذِفِينَ لِلصِّدِّيقَةِ فَإِنَّهُ لَيْسَ لَهُمْ شُبْهَةُ دَلِيلٍ فَهُمْ كُفَّارٌ كَالْفَلَاسِفَةِ كَمَا بَسَطْنَاهُ فِي كِتَابِنَا.....
خلاصہ یہ ہوا کہ جو بھی شخص ضروری عقائد کا انکار کرے، مثلا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ پر نزول وحی کا قائل ہو، یا مجسمہ عفت سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیھا پر تمہت لگائے، یا قرآن کریم کی صداقت پر ایمان نہ رکھے وغیرہ تو ظاہر ہے ایسے شخص کا کم از کم اسلام جیسے دین سے تعلق نہیں ہوسکتا ہے بھلے اس کا نام جو بھی ہو۔
نیز عالم اسلام کی مشہور فقہی مجمع الفقہ الاسلامی، سمیت کئی دینی علمی اور سیاسی تحریکوں اور مواقف مین شیعہ سنی اکھٹے تھے اور ہیں۔ اس لئے یہ صرف کسی ایک علاقہ، ملک یا چند افراد کا مسئلہ نہیں۔
مخدومنا الکریم- حفظہ اللہ - جب تنہائی میں بیٹھیں گے تو ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ اپنی زندگی کے اسی اسی سال علم اور فقہ پر نثار کرنے اور لاکھوں کی تعداد میں محدث، فقیہ ، سکالرز اور پی ایچ ڈیز تیار کرنے کے باوجود ایسا زمانہ بھی آیا کہ میری اردو عبارت سمجھنے سے قاصر بچے بھی مجھے ہی فتوی اور فقہ کے اصول سمجھانے بیٹھ جائیں گے! ( واللہ مجھے یہ الفاظ لکھتے ہوئے اور سوچتے ہوئےبھی رونا آرہاہے، یہ ایسا ہی ہے کہ جب کوئی جوان لڑکا اپنے بوڑھے باپ کو ڈانٹ کر کہے کہ بابا تو کیا جانتا ہے، چل نکل، سوچئیے اس باپ کے دل پر کیا گذرے گی؟!)
آخر میں بطور تحدیث بالنعمت کے عرض کرتا ہوں کہ اللہ پاک نے اس ذرہ بے قیمت کو کئی ممالک کے اہل علم کو فقہ اور حدیث شریف کی تدریس کی توفیق عطا فرمائی ہے، اللہ تعالی تادم آخر یہ سلسلہ جاری رکھے، آمین۔
میرے سامنے بیٹھنے والوں مین سے اکثر پی ایچ ڈی، مفتی اور ایسے لوگ بھی ہیں جن کے اپنے شاگرد سینکڑوں کی تعداد مین ہیں، مدارس کی رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے دنیا کی بہترین جامعات الازھر، طرابلس، الایمان یمن، عراق، وغیرہ سے بھی کسب فیض کیا ہے، اور اکثر کا تعلق دوسرے فقہی مکاتب سے بھی ہے، لیکن جب کسی مسئلہ پر شیخ الاسلام مفتی عثمانی یا مفتی رفیع عثمانی کی رائے پیش کرتا ہوں تو اکثر بیشتر ان کی زبان سے یہی نکلتا ہے کہ ''
ولیس اللہ علی بمستنکر
ان یجمع العالم فی عالم
( جہاں بھر کا علم اٹھاکر کسی ایک جھولی میں ڈالدے، تو کریم اور عطا کرنے والے رب سے کون پوچھ سکتا ہے؟)
اور الحمد للہ بعض ملکوں مین دینی مدارس کی نصاب سازی اور بعض عصری جامعات میں حضرت شیخ الاسلام تقی عثمانی کی تین کتابیں بی ایس، ماسٹر اور پی ایچ ڈی لیول پر جبکہ مفتی اعظم پاکستان کی ضابط المفطرات في مجال التّداوي'' پی ایچ ڈی اور اختصاص میں داخل کر وانے کاشرف حاصل ہوا ہے۔ اور اس وقت بھی تصوف اور فقہ میں مدارس سے فراغت کے بعد پی ایچ ڈی کرنے والے چند دوستوں کو ہفتہ میں تین بار حضرت تھانوی اور مفتی رفیع عثمانی کی اردو کی کتاب نوادر الفقہ کی تدریس کررہاہوں۔
اس لئے طلبہ بھائیوں سے گذارش ہے کہ خدارا بے ادبی علم سے محروم کردیتی ہے، اس لئے اس سے بچیں۔ آپ کا قصور اس لئے نہیں کہ آپ کو میسر ماحول اور سرپرست شاید آپ کی پرواز بھی وہاں تک محدود رکھنا چاہتے ہین جہاں تک ان کی پہنچ ہے۔لیکن آپ ایسا مت کیجئے۔ یاد رکھئے کہ میرا اور آپ کا کل اثاثہ اور راس المال ہی اپنے مشایخ کا ادب اور احترام ہے، بالخصوص خانوادہ عثمانی کا اس امت پر بہت بڑا احسان ہے، جسے چکانے میں شاید اس امت کو صدیاں کو لگیں۔
اور جو لوگ جذباتیت اور جنونیت کو گلیمرائز کرکے اپنی مارکیٹ بڑھا رہے تھے ان کو خوش خبری ہو کہ تمہاری محنتیں رنگ لاچکی ہیں، اب معتل اور اجوف واوی ، یائی یا مبتدا، خبر کے معرفہ ہونے نہ ہونے کی ابحاث یاد کرنے والا طالب علم - جو ہمیں اپنی اولاد کیطرح عزیز ہے- بھی آسانی سے اپنے ہی بزرگوں کی داڑھی آسانی سے کھینچ سکتا ہے، اور کھینچ رہاہے۔ اب تو آپ کے کلیجہ مین ٹھنڈ پڑگئی ہوگی۔نا؟!
لیکن یہ بھی مت بھولئے کہ کسی کے راستہ میں پھینکا ہوا کانٹا اپنے تلوے میں چبھ سکتا ہے۔ اسی لئے چراغ سب کے بجھین گے، ہوا کسی کی نہیں!
دوسری طرف ارباب مدارس سے بھی گذارش ہے کہ ہمیں اپنے اسلوب تعلیم، تربیت اور معاشرت پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہمارے مہتمم حضرات اللہ تعالی ان کی زندگیوں میں کروڑہا برکتیں نازل کرے، اور جو فوت ہوگئے ہیں ان کی قبروں کو جنت کا باغ بنائے۔ اپنی انا، سٹیٹس سب کچھ کو داؤ پر لگا کر پیسہ پیسہ مانگ مانگ کر، لوگوں کی جھڑکیاں سن کر ہمارے جیسے غریب لوگوں کے بچوں کیلئے تعلیم کا انتظام کرتے ہیں، لیکن ہم ایک ایسی نسل تیار ہوکر نکل رہے ہیں جو آپ ہی کے بزرگوں کی عزتوں سے اپنا خراج وصول کریں، تو پھر غالب کو دوائے دل کے علاوہ کسی اور مشغلہ کا بھی سوچنا چاہیئے، کیونکہ غالب کے پاس دکھوں کی کمی کمی نہیں!
آخر میں شیخنا العزیز، مخدومنا المکرم، ہمیں معاف کیجئے گا، ہم اس قابل نہ تھے کہ آپ جیسی شیخ تھانوی کی متوازن فکر، شبیر احمد عثمانی کے سدا بہار قلم، اور شفیع عثمانی کےعمیق مطالعہ، اور ظفر احمد عثمانی کے دلکش اسلوب نگارش کے امین جن سے ایک عالم مستفید ہورہاہے، ہماری ہوتیں، ہم تو بس ایک ہجوم سرگشتہ وبرگشتہ ہیں، ہمیں اپنے جیسے ہی اچھے لگتے ہیں! جن پر سطحیت، شوخی اور ایڑیاں اٹھاکر قد اونچا کرنے کا جذبہ غالب ہو!
Comments
Post a Comment