Turkish scholarship ترکش سکالر شپ

Image
The Turkish Scholarship Authority, YTB, has announced the opening of registration for scholarships for the academic year 2023   The application date for undergraduate and postgraduate students will start from 01/10/2023 until 02/20/2023, through the website of the Turkish Scholarship Authority, by filling in the information and downloading the required documents via the following website: Submission link 🛑  نے ترکش سکالر شپ برائے  2023 کیلئے اعلان کردیا ہے۔ درج ذیل لنک سے قدم بقدم اپلائی کیا جاسکتا ہے۔ YTB  https://tbbs.turkiyeburslari.gov.tr/ Important links for those wishing to apply for Turkish scholarships: ⭕ Link to apply for the Turkish scholarship: https://tbbs.turkiyeburslari.gov.tr ⭕ Guide to applying for Turkish scholarships: اپلائی کیسے کریں؟  اس لنک پہ لنک کریں  https://drive.google.com/file/d/120aSAGiQlWc5ZQdvTzARH5SCM9I-iBY5/view?usp=drivesdk ⭕Letter of Intent Guide for Turkish Scholarships:  اظہارِ دلچسپی کی درخواست   https://drive...

مدارس دینیہ مُحبتوں کے امین۔۔۔ان سے نفرت کیوں؟!

 

   





داعش، القاعدہ اور حزب اللہ جیسی شدت پسند تنظیموں کے بارے یہ پڑھا اور سُنا  ہے وہ اپنے مُخالفیں کو نہ صرف غیر مُسلم سمجھتے ہیں بلکہ ان کو ہر طرح کی ایذا پہنچانا بھی درست سمجھتے ہین، لیکن وطن عزیز کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی اکثریت بھی ایسی ہوگی؟ کبھی سوچا نہیں تھا۔ پی ٹی آئی سے وابستہ اکثر اور   بعض  دیندار پروفیسر لیول  کے دوستوں کو  دینی مدارس کے بارے حقارت بھرا لہجہ استعمال کرتے ہُوئے دیکھتاہوں تو بہت دُکھ بھی ہوتا ہے اور حیرانگی بھی! لگتا ہے یہ لوگ شاید کبھی مدرسہ میں گئے ہی نہیں، نہ ان بیچاروں کو مدارس کے نصاب کے بارے کُچھ معلومات ہیں اور نہ ہی وہاں کے نظام اور طریقہ زندگی کی کُچھ خبر!

دینی مدارس ہو یا جماعتیں جب کوئی موقع ہو تو تنقید کرنے میں مین خُود بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا،  بالخصوص  مدارس  کے وہ مہتممین، منتظمین اور مُختلف وفاقوں کے ذمہ داران جو باوجود قُدرت کے اپنی ذمہ داریاں پُوری نہیں کرتے، یا وہ افراد جو مُنہ اُٹھائی ہر دوسری گلی میں مدرسہ بنادیتے ہیں، اکثر بیشتر میرے نشانہ پر رہتے ہیں۔ لیکن  پورے مدارس کے سسٹم کو نفرت کا نشانہ بنانا،  تمسخُر اُڑانا انتہائی  گِری ہُوئی حرکت ہے۔

                                                                                                                                                                                                                                       مدارس اِس ملک کی بہت بڑی این جی او ہیں، جو لاکھون بچوں اور بچیوں کو بیک وقت مفت تعلیم اور ہاسٹل بلکہ بعض ادارے تو دیگر اخراجات بھی فراہم کرتے ہیں۔ مدارس دینیہ - اپنی بشری خامیوں اور کوتاہیوں -جن سے کوئی بھی خالی نہین ہوتا- کے باوجود مُحبتوں کے امین ہیں، یہان کے طلبہ اور اساتذہ کا آپس کا تعلق اتنا ادب اور محبت بھرا ہوتا ہے کہ شاید ہی کہیں اور اِس کی مثال ملتی ہو۔ 1999 مین جب میں  دارالعلوم فیض عام سمندری میں حفظ کا طالب علم تھا، اور چودہ سال عمر تھی، تو سخت بیمار پڑگیا، ایک ہفتہ سے زائد ہسپتال میں  ہمارے استادمکرم حضرت  قاری سید احمد رضا شاہ صاحب رحیمی  مدظلہ - جن کے بارے ان شاء اللہ تفصیل سے لکھوں گا-  نے مُجھے ہسپتال میں داخل کروایا، ایک بار پاؤں  کا آپریشن ہوا، دوسری بار ڈائریا کی وجہ سے کئی دِن ہسپتال میں رہا، تمام اخراجات مدرسہ نے برداشت کئے۔  کھانے پینے کپڑون ، جوتوں کے علاوہ گھر جانے کا کرایہ بھی استاذ جی – اللہ تعالی اُن کا سایہ ہمارے سرون پر تادیر قائم رکھے - اپنی جیب سے دیا کرتے تھے۔

کراچی میں پڑھائی کے دوران ایک دفعہ بیمار ہُوا تو مکہ مسجد، مدرسہ امام ابوحنیفہ کے ایک ساتھی نے ادارہ کے مہتمم حضرت مولنا یوسف صاحب- مدظلہ -  سے سائن کرواکر مکمل علاج فری کروایا۔  جو بھی ساتھی ہسپتال مین داخل ہو، چار چار پانچ ساتھی خُون دینے سے لیکر کپڑے دھونے تک رضاکارانہ طور پر خدمت کیلئے ہر وقت موجود رہتے تھے۔  بلکہ وہ دو کمینے دوست مُجھے کبھی نہیں بُھولیں گے، جوپاکستان کا کرکٹ میچ دیکھنے گئےتھے ، رات دیرہونے کی وجہ سے مدرسہ جانے کی بجائے " تیماردار"  بن کر ہسپتال میں میرے پاس آئے اور میرے ہی بیڈ پہ ہی سوگئے تھے۔  صبح ناشتہ کرکے مدرسہ چلے گئے  اور اساتذہ کے پُوچھنے پر " تیمارداری"   کا بہانہ کرکے سزا سے بچ گئے!

بلکہ  ایک اور بات جِس پر مُجھے خوشی سے رونا آتا ہے کہ ایک دوست نے اپنا تجربہ شئیر کیاکہ وہ جب بنوری ٹاؤن مین زیر تعلیم تھے تو اُن کے والد - جو میرے مرحوم والد کی طرح مزدور آدمی تھے- سخت بیمار ہوگئے، ملک کی عظیم اور مشہور دینی درسگاہ بنوری ٹاؤن والوں اُس بچے کے غریب والد کو بلاکر کراچی کے ایک اچھے ہسپتال مین اُس کا مکمل علاج کروایا! دُنیا کا شاید ہی کوئی تعلیمی ادارہ ایسا کرتاہو!

 چند دن پہلے کی بات ہے کہ میرے ایک بہت اچھے دوست جن کو میں نے کبھی بڑے بھائی سے کم کا درجہ نہیں دیا، جب اُنہون نے کسی چیز کا کہا چھوٹے بھائیوں کی طرح جو ہوسکا، خدمت کی، لیکن اُن پر پی ٹی آئی نے پتہ نہیں ایسا کیا جادو کرلیا ہے کہ جب بھی مذہبی سیاسی قیادت یا مدارس کا نام آتا ہے تو اتنی نفرت اُگلنے لگ جاتے ہیں کہ بندہ دل ہی دل میں  دُعائے صحت کرنے لگ جاتاہے۔  

 اور مقام افسوس یہ ہے کہ ایسے ایسے لوگ جنہوں نے ملک اور بیرون ملک کی بڑی بڑی دانشگاہوں سے تعلیم حاصل کی ہے، عمر کا بھی ایک خاص حصہ گُذار چُکے ہیں، بین الاقوامی اداروں میں کام کیا ہے، لیکن اُن مین پلوارزم ، تحمل برداشت، دُوسرے کو سُننے یا دلیل کی بُنیاد پر اختلاف کرنے کا حوصلہ تو کیا ہوگا اُلٹا جب اپنے فریق مُخالف کے خلاف گفتگو شروع کردیتے ہیں تو زبان کے ساتھ وہ انگارے باندھتے ہین کہ بندہ حیران ہوجاتاہے۔ اِن دوستوں کوپ نجانے کیوں پاکستانی مدارس کے  طلبہ اور اساتذہ سکے وُجود تک سے اتنی نفرت  ہے!

اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کی دیگر سیاسی یا مذہبی جماعتون کے کارکن کوئی امام ابوحنیفہ ہیں، ہزارہا خامیاں ہم سب میں موجود ہیں، لیکن گُذارش یہ ہے کہ مدرسہ کےطالب علم  اور استاد کو بھی پاکستانی سینیٹ، اسمبلی سے لیکر کالج یونیورسٹی تک ہر جگہ اتنا ہی حق ہے جتنا دُوسرے کسی ہے، اُس کی جیب میں بھی وہی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہے جو دوسروں کے پاس ہے۔  وہ کسی سے کم شہری نہیں۔

     ذاتی طور پر میں - الحمدللہ -  گُذشتہ کئی سالوں سے مختلف ممالک کی اچھی جامعات اور تعلیمی ادارون سے وابستہ ہوں،  جامعہ الازھر، جامعہ مدینہ ، ملیشیا کی جامعات سے لیکر سنٹرل ایشیا کی اچھی جامعات کے فارغ التحصیل حضرات کے ساتھ بطور استاد، ساتھی یا شاگرد کام کرنے کا موقع ملا ہے، نو، دس سال کے اِس تجربہ کی روشنی میں یہ دعوی کرسکتا ہوں تعلیمی میدان میں ایک اچھے مدرسہ کا پڑھا ہُوا ایک فاضل ( جِس نے دورانِ طالب علمی حصولِ علم پر توجہ دی ہو)  عربی گرائمر، فقہ ، اصول فقہ، حدیث، میراث، منطق اور فلفسہ میں کسی بھی ادارے کے ماسٹر ڈگی ہولڈر سے کم نہیں ہوتا۔ اس لئے تعمیری تنقید اور دلیل کی بنیاد پر اختلاف آپ کا حق ہے۔ لیکن خُود عقلِ کُل سمجھ کر ملک کی آبادی کے بہت بڑے حصہ پر " مدرسہ کا مولوی" کا فقرہ کسنا، اور حقارت آمیز لہجہ اپنانا، نفسیاتی بیماری اور مفت کے کمپلکس کے سِوا کُچھ نہیں!







Comments

  1. بارک اللہ فیکم و جزاکم خیرا

    ReplyDelete
  2. Masha allah, ustaz g ap ne to madariss or Ulama k bary ma Haq ada kr dia , Allah tala ap ko jaza e khair ata farmaye ameen

    ReplyDelete
  3. الله ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے آمین ۔

    ReplyDelete
  4. ماشاءاللہ مدارس دینیہ کا حق ادا کردیا
    بھت ھی عمدہ اللہ مزید کامیابی و کامرانی نصیب فرماٸیزس

    ReplyDelete
    Replies
    1. آمین۔ جزاک اللہ خیرا۔ مدارس کا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم اُن کا دفاع کرین، اج ہم لوگون کے پاس جو کچھ ہے، یہ انہی مدارس کی برکت ہے۔ باقی کمی کوتاہی اور کمزوری کا انکار نہین اور کوئی اصلاحی تنقید کرے تو وہ بھی قبول ہے۔

      Delete
  5. ماشاءاللہ مفتی صاحب آپ نے مظلوم مدارس کا عمدہ دفاع کیا ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. حضرت تنقید بالکل ہونی چاہیئے، اصلاح اور شکوہ شکایات بھی، لیکن تحقیر اور تمسخر انسانی فعل نہیں۔ مدارس ملک کی ایک بڑی این جی او ہیں۔

      Delete

Post a Comment

Popular posts from this blog

کوہستان کے شہیدو۔۔۔۔کاش تُم افغانی ہوتے!

Never-ending problems of Hatoon Village

سیلاب ۔۔۔ ضروری پہلوؤں کو نظر انداز مت کیجئے!