30 November 2017
رنگوں اور زبانوں کا تنوع ہو یا فکر ونظر کا اختلاف ، قدرت الہیہ کی بے مثل ہونیکی نشانیاں ہیں ، قرآن پاک کے 21 پارے میں میں اللہ تعالی نے اسی حقیت کی طرف اشارہ فرمایاہے ، اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک تمہارے زنگوں اور زبانوں کا اختلاف بھی ہے !
بلکہ سچ پوچھیئے تو اس فانی کائنات اور حیات مستعار کا حسن ہی اختلاف میں ہے ، یہ رات کے اندھیرے کا چھاجانا ، ستاروں کا ابھرنا ، ڈوبنا ، وہ سپیدہ سحر کا طلوع ہونا ، یہ بہاروں کی اٹھکیلیاں تو وہ خزاوں کا - کل من علیھا فان - ( اس کائنات کی ہر چیز فانی ہے )
کا اعلان کرتے آنا ، یہ گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ وہ سردیوں کی یخ بستہ ہوائیں ، بچپن کی شرارتیں ، لڑکپن کی سرگرمیاں ، شباب کی اچھل کود اور بڑھابے کے نشیب وفراز ، ذرا سوچیئے اگر ساری زندگی صرف ایک موسم ، ایک ہی وقت ، ایک رنگ ، ایک ہی زبان یا ایک ہی منظر ہوتا تو زندگی کا کیا لطف باقی رہ جاتا ؟ اسی ابدی حقیقت کو قرآن کریم یوں بیان کرتاہے ارے بتاؤ تو سہی کہ خلاق عالم تمہارے پر سیاہ رات کی چادر تن دے تو کون ہے وہ جو تمہیں ، دن کی روشنیاں عطاکرے ؟ سنتے نہیں ہو تم ؟ اور اگر رب کائنات ہمیشہ کیلئے تمہارے اوپر دن ہی رکھے ، تو ہے کوئی جو تمہارے لئے سکون آور رات دلا سکے ؟ دیکھتے نہیں ہو ؟ اور یہ اسی کی بے پناہ رحمتوں کی ایک جھلک ہے کہ اس نے تمہارے لئے دن کے اجالے بھی دیے تو رات کے اندھیرے بھی ، تاکہ تم ( رات میں ) آرام اور (دن میں )کام کرسکو ، اور پھر اپنے رب کا شکر بجا لاسکو ( القصص 71-73)
شنٹا اگرچہ میری مادری زبان نہیں ، اور نہیں - بچپن سے باپہ سفر رہنے کے سبب - اچھی طرح بول سکتاہوں ، لیکن جہاں میں نے آنکھ کھولی ، میرے ارد گرد ، شنٹا بولی ، سنی اور گائی جاتی تھی ، اور ہے ! اس لئیے اگرچہ میں شنٹا قاعدہ کی تکنیکی ، ادبی حیثیت پر کوئی تبصرہ کرنے سے تو قاصر ہوں ، لیکن اس کی حلاوت ، چاشنی نہ صرف محسوس کرسکتاہوں ، بلکہ کھبی کھبار سن کر وجد سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ، اور یہ تمنا بھی کرتا ہوں کی شنٹا کی محبتوں کا یہ درخت سدا پھولتاپھلتا رہے !
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کسی قوم کو سیاسی اور معاشی غلبہ حاصل ہوجائے ، تو اس کا اثر صرف ان دو میدانوں تک باقی نہیں رہتا ، بلکہ زبان ، کلچر سے لیکر - ضعیف الفکر لوگوں - کی سوچ تک کو مغلوب کردیتاہے ، سوسال سے کچھ اوپر ہونے کو ہے کہ قوم رسول ہاشمی ﷺ سمیت جن جن قوموں کے گلستان میں خزاں کا راج ہے ، تب سے ان کے کلچر ، طور طریقوں سے لیکر زبانوں - بلکہ افسوس کے ساتھ کہوں تو- سوچ و فکر تک - کی عملداری مسلسل سکڑتی چلی جارہی ہے ، مغرب کی زبان و تہذیب کا وہ طوفان چل پڑا ہے کہ اس کے تھپیڑوں کے آگے ، زبانیں ، ثقافتیں اور تہذ یبیں دونوں ہاتھوں سے تھام تھام کر بھی اپنی دستاریں ہی نہیں ، خالی وجود - بلا جبہ ودستار- بچانے میں کامیاب نہیں ہوپارہی ہیں ، ایسے میں بیچاری شنٹا سے کیا گلہ اور کیسا شکوہ کیا جاسکتا ہے ؟ ، کیونکہ ایک تو اس بیچاری شنٹا کو جو اماں ملی تو کہاں ملی ؟ کے تحت پہاڑوں کی چٹانوں پر گزارا کرنے والے ایسے چند نفوس کی ماں بولی ہونے کا موقعہ ملا کہ جن کے پاس ، تعلیم ، صحت ، و دیگر بنیادی سہولتیں تو رہیں ، وہ اپنی پوری سیاسی شناخت تک کو ترس رہے ہیں ، لیکن اس باوجود بھی صد آفرین اور محبت بھرا سلام ماں بولی کے ان غیرت مند اور وفا سرشت فرزندوں پر ، جنہوں نے اپنے اس تہذیبی فریضہ کو بھلایا نہیں ، بلکہ اس کی حفاظت کی مختلف صورتوں میں مسلسل کو شش کرتے رہے ، اس فرق کے ساتھ کہ کسی نے اس کیلئے زبان سے کام لیا تو کسی نے آواز سے اور کسی کے حصہ میں قلم چلانا آیا ، کافی سال قبل ضلع غذر داماس کے ایک دوست ، ٹیچر اور حکیم مولنا جاوید اقبال نے جب اپنے ایک رسالہ '' شنٹا سوینو موری " ( شنا اقوال زریں ) پر کچھ لکھنے کا اصرار فرمایا ، تو اس وقت اپنی شنا نا آشنائی کے اعتراف کے ساتھ یہ لفظ بے اختیار نوک قلم سے نکلا تھا کہ " دم توڑتی شنٹا " کو بچانے کی ایک کاوش ہے ، لیکن 2017 کا سال امید ہے کہ شنٹا کیلئے نئی زندگی کا سال شمار ہوگا ، لوکل حکومت ، اور تعلیم یافتہ شنٹا شناس قابل افراد کی محنتیں اہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھارہی ہیں ، مقامی زبانوں کی حفاظت پر قانون سازی ، شنٹا قاعدے کی ترتیب سے لیکر تدریس کے فیصلوں تک ، کافی سارے اہم ن مراحل طے ہوچکے ہیں ، اس پر موجودہ گورنمٹ ، اور شنٹا کیلئے کام کرنے والی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے ۔
اللہ کرے کہ ان سب کہ یہ کاوشیں خوب کامیابیوں سے ہمکنار ہوں ۔
میری ارباب اختیار ، سمیت ان تمام اھل قلم اور اھل علم سے گزارش ہوگی تو وہ اپنی محنتوں کا سلسلہ جاری رکھیں
ترس صیاد کو کچھ آچلا ہے ، پھڑ پھڑاتا جا
کہ شاید صورت پرواز ہی پرواز بن جائے
Comments
Post a Comment