Turkish scholarship ترکش سکالر شپ

Image
The Turkish Scholarship Authority, YTB, has announced the opening of registration for scholarships for the academic year 2023   The application date for undergraduate and postgraduate students will start from 01/10/2023 until 02/20/2023, through the website of the Turkish Scholarship Authority, by filling in the information and downloading the required documents via the following website: Submission link 🛑  نے ترکش سکالر شپ برائے  2023 کیلئے اعلان کردیا ہے۔ درج ذیل لنک سے قدم بقدم اپلائی کیا جاسکتا ہے۔ YTB  https://tbbs.turkiyeburslari.gov.tr/ Important links for those wishing to apply for Turkish scholarships: ⭕ Link to apply for the Turkish scholarship: https://tbbs.turkiyeburslari.gov.tr ⭕ Guide to applying for Turkish scholarships: اپلائی کیسے کریں؟  اس لنک پہ لنک کریں  https://drive.google.com/file/d/120aSAGiQlWc5ZQdvTzARH5SCM9I-iBY5/view?usp=drivesdk ⭕Letter of Intent Guide for Turkish Scholarships:  اظہارِ دلچسپی کی درخواست   https://drive...

اب حکومت بھی اپنی ذمہ داری پوری کرے!

 27 August 2020

چند دن قبل شرم وحیا سے عاری، دریدہ دھن، منبع فساد اور خبیث النفس نے اہنی ایک مذہبی مجلس سے گفتگو کرتے ہوئے اس ہستی کی شان میں یاوہ گوئی ہے، جسے رب العالمین نے اپنے رسول اکرمﷺ کے صاحب اور دوستی کا واضح لقب ہی عطا نہیں فرمایا ہے،بلکہ عملی طور پر تا قیام قیامت اس کے پہلو میں محواستراحت ہونے کی سعادت بھی بخشی یے، !
بطحا کی ریتلی وادی میں صادق الامین اور صدیق امین کے درمیان شروع ہونے والے اس عدیم المثال ، والہانہ اور الہامی تعلق خاطر کو کیا نام اور کیسا عنوان دیا جائے؟
درست بات تو یہ ہے کہ اس تعلق کو بیان کرنے کیلئے الفاظ اپنی غربت، تعبیرات اپنی کم مائیگی اور زبانیں تہی دامنی کا شکوہ کرتی دکھائی دیتی ہیں، کیا مال، کیاجان، اولاد تک سبھی کچھ لاکر حاضر خدمت کیا اور کہتے بھی رہے''
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!
سنن ابوداود کی ایک روایت کے مطابق جب ام المومنین سید عائشہ - سلام اللہ علیھا- نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ زیادہ بے تکلفی کی، اور بحیثیت بیوی ان کو حق بھی تھا، لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ منظر دیکھا نہ گیا تو نا صرف سیدہ کو ڈانٹنے لگے بلکہ کچھ پٹائی کا بھی ارادہ کرلیا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے روک دیا، بھلا رحمت للعالمین کیسے کسی کو اپنی عائشہ پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت دیتے، کیونکہ اس کے رب العالمین نے تو دور بیٹھ کر زبان ہلانے والوں کا منہ بھی وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ (اور ان میں سے جس شخص نے بہتان اپنے سرلیا، اس کیلئے تو زبردست عذاب ہے) کہ کر قیامت تک کیلئے خاک سے بھر دیا ہے!
سیدنا ابو بکر اپنی بیٹی سے ناراض ہوکر چلے گئے، ادھر رسول اکرمﷺ سیدہ عائشہ سے بہت مزے اور بے تکلفانہ انداز میں کہ بھی رہے ہیں كيف رأيتني أنقذتك من الرجل ؟ دیکھ لو، کیسے میں نے تمہیں بچالیا ہے؟
کچھ دن بعد جب سیدنا ابو بکر آئے تو دیکھا کہ حمیرا اور ان کے سرتاج- علیھما الصلاہ والسلام- پھر شیر وشکر ، خوش وخرم ہیں! سیدنا ابوبکر نے کہا یارسول اللہ جب آپ دونوں میاں بیوی اپنی لڑائیوں میں مجھے شریک کرتے ہیں، تو پھر صلح میں بھی شریک کر لیجئے! آپﷺ نے فورا فرمایا: " قد فعلنا ، قد فعلنا ( وہ تو ہم کب کے کرچکے!)
محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صرف اپنی عائلی لڑائی اور صلح میں شریک ہی نہیں کیا، سفر، حضر؛ جنگ امن، مسجد، ہر جگہ ہی اپنی مصاحبت کا شرف بخشا، اور زبان محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکلنے والے جملے قد فعلنا قد فعلنا(وہ تو ہم کب کے آپ کو اپنے ساتھ ملاچکے) والے الہامی نجانے کس برق رفتاری سے عرش کی طرف لپکنے کہ کائنات کے مالک نے ابوبکر کو روضہ اقدس میں بھی پہلو میں سلاکر بتادیا کہ جہاں جہاں آپ کا بس چلتا تھا وہاں آپ نے ابو بکر کو ساتھ ملائے رکھا، اب میری باری ہے، اب قیامت تک ابوبکر کو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں کرسکے گا ۔
حدیث شریف کے ان جملوں کو آدمی دوہراکر پڑھے، اسلوب اور عربیت کی چاشنی اپنی جگہ اس بے تکلفانہ انداز پہ بھی آدمی کو کتنا پیار آتا ہے؟
ادھر ابوبکر صدیق کا یہ حال تھا جب بھی اہل بیت کے بارے کوئی معاملہ پیش آتا تو کہ اٹھتے ارْقُبُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ - سید نفیس شاہ صاحب- رحمہ اللہ کے مطابق اس کا مطلب: اہل بیت کو رسول اللہ ﷺ کی نظر دیکھو! بنتا ہے۔
اور خود سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
لا أوتى برجل يفضلني على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري( بحار الانوار، ج ١٠ - الصفحة ٣٧٧)
( خلاصہ جو مجھے حضرت ابوبکر اور عمر پر محض فضیلت بھی دیدے تو مین اس کو حد قذف لگاوں گا)
اب اس ہستی کے بارے بھی جو زبان درازی کرتا ہے، تو اس کا یہی مطلب ہے کہ اس شخص کے دل، عقل اور سوچ وفکر پر اللہ تعالی نے پردہ ڈال دیا ہے۔
اس سلسلہ دو باتیں خوش آئند ہیں
1۔ علماء کرام اور اہل مذھب نے بجائے قانون ہاتھ میں لینے کے قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، اس پر وہ قابل تعریف اور لائق تحسین ہیں، ایسا ہی ہوناچاہیئے۔
2۔ کئی شیعہ مسلک کے اہل علم نے بھی اس خبیث سے براء ت کا اعلان کیا ہے۔
اس لئے حکومت سے پرزور مطالبہ ہے کہ وہ اس وہ خبیث ملاں کو گرفتار کرکے سخت سزا دے۔ اور عوام بالخصوص اہل مذھب کو کے اس شکوہ کو ختم کرے کہ حساس دینی معاملات کے بارے ہمارے قانون کی سپیڈ کم اور گرفت کمزور پڑجاتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

کوہستان کے شہیدو۔۔۔۔کاش تُم افغانی ہوتے!

Never-ending problems of Hatoon Village

سیلاب ۔۔۔ ضروری پہلوؤں کو نظر انداز مت کیجئے!