22 March 2021
قدامعنت النظر فی كتبي يابني! مشاء الله عليك؛
قد أجزت لك بكل ما كتبت في كتبي ورويت من مشايخي الكرام وأنت تستحق ذلك؛ هذا ماأحسب والله يعلم السرائر؛ ( دسمبر 2011، مکہ مکرمہ مسجد عبدالقادر بن نصیر))
(میں نے اپنی کتب میں جو کچھ لکھاہے، اور اپنے شیوخ اور اساتذہ جتنی اجازات مجھے حاصل ہیں، تمہیں میں ان سب کی اجازت دیتاہوں، میرےگمان کے مطابق تم اس کے مستحق ہو، باقی چھپے رازوں کا حال اللہ تعالی جانتے ہیں۔)
محبت، ذرہ نوازی اور شفقت بھرے یہ الفاظ، اپنی کتب بالخصوص صحیح مسلم کی شرح اورپھر اپنے دولت کدہ پر حاضری کی دعوت یہ وہ سعادتیں تھیں جو اس طالب علم کو استاذ علامہ علی الصابونی رحمہ اللہ کی طرف سے عطا ہوئی تھیں۔
شیخ کی صفوہ التفاسیر سے تعارف رابعہ میں ہوگیاتھا، بالخصوص ابھی بھی یاد پڑتاہے کہ 2001 میں اسلام آباد جامعہ محمدیہ کے دارالافتاء جو دارالمطالعہ بھی ہوا کرتاتھا) میں
صفوہ التفاسیر پہلی بار ہاتھ لگی تھی اور پہلی بار جو واقعہ پڑھا تھا وہ سورہ ھود کی آیت وقیل یا ارض ابلعی۔۔۔ کی تفسیر میں قرآن کریم کے اعجاز علمی پر بات کرتے ہوئے ابن المقفع کا واقعہ تھا، اور دوسرا سورہ شعرا کی آیت والشعراء یتبعھم الغاون۔۔۔کی تفسیر میں لطیفہ کے عنوان سے لکھاہوا فرزق کا قصہ۔
اس کے بعدسابعہ کے سال شیخ رح کی کتاب التبیان نصاب میں داخل تھی اور ہمارے مرحوم استاذ مولنا ابن الحسن عباسی پڑھاتے تھے، عربی سے والہانہ عشق کی وجہ سے حضرت شیخ کی کئی تعبیرات ابھی تک یاد ہیں، مثلا التبیان میں تدوین قرآن پر بحث کرتے ہوئے کہیں پر ایک تعبیر
expression
اختیار کی ہے:
فكانت صدورهم أناجيلهم
اسی طرح کسی مستشرق کے بارے لکھاہے کہ اس نے آیت هن لباس لكم... کی تفسیر هن بطلونات لكم وأنتم بنطلونات لهن.. سے کیاتھا!
شیخ رح سے ملاقات سے کی تمنا کئی عرصہ سے تھی، 2011 میں جب اللہ تعالی دیارحجاز کا سفر مقدر فرمایا تو کئی دن تک مکہ مکرمہ میں مقیم اور جنت المعلی کے مکین مخدوم مکرم ڈاکٹر عبدالقیوم (گلاپوروالے) رحمہ اللہ کے دولت کدہ پر حاضری کا شرف رہا، اس دوران ڈاکٹر صاحب کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر احمد عبدالقیوم صاحب کی محبت، تعاون اور احسان ناقابل فراموش رہا، ڈاکٹر احمد صاحب نے ہی بتایا کہ شیخ ظہر کی نماز انہی کے پیچھے ادا کرتے ہیں، پھر زیارت کا شرف حاصل ہوا، مسجد سے ملحقہ کمرہ میں بڑی دیر تک خدمت میں حاضری کی سعادت رہی، مجھے شیخ کی کتب میں سے جو جو واقعات، نکات اور اشعار یاد تھے سب سنائے، کہ آپ نے اپنی فلاں کتاب میں یہ لکھاہے اور فلاں میں یوں؛
فرزدق والے واقعہ پر کھل کھلا کر ہنس دیے، اور فرمایا: بیٹے تم نے میری کتابوں کو بہت غور سے پڑھا ہے!
پھر ماسٹر میں پہلے جامعہ دجلہ پھر استنبول یونیورسٹی دوبار روائع البيان في تفسير آيات الأحكام پڑھنے کا شرف حاصل رہا، البتہ علم و عمل سے بے بہرہ اس طالب کا خیال یہ ہے آیات الاحکام کے سلسلہ میں شیخ سایس کے اسلوب پر فقہ کا رنگ زیادہ نمایاں ہے، جبکہ شیخ صابونی کی عبارات زیادہ سلیس ہیں۔
شیخ کی وفات کی خبر سن کر مختلف ممالک بالخصوص عراق کے بعض اہل علم نے کال اور میسیج کے ذریعہ تعزیت کی گہرے رنج کا اظہار اور دعا کی تو شیخ کی قسمت پر بہت روک آیا اور سوچنے لگا کہ
شیخ رح دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا فیض جاری ہے اور ہزارہا لوگ ایسے ہیں جن کو شاید شیخ تو نہ جانتے ہوں گے لیکن ان کی آنکھیں شیخ کی یاد میں اشکبار اور ہاتھ شیخ کیلئے دعا کیلئے بلند ہیں،؛
Robin Sharma
کی ایک کتاب ہے
Who will cry when you die?
تمہاری موت سے کتنی آنکھیں اشکبار ہوسکیں گی؟
بس چند روزہ زندگی میں اسی سوال کا جواب تلاش کرناہے؛
اللہ تعالی شیخ الصابونی سمیت تمام اہل علم ( جو اپنی اپنی بساط کے مطابق اس امت کی صحیح راہ نمائی کرچکے ہیں یا کررہے ہیں) پر ریت کے ذروں، بارش کے قطروں اور درخت کے پتوں جتنی رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔
Comments
Post a Comment