Turkish scholarship ترکش سکالر شپ

Image
The Turkish Scholarship Authority, YTB, has announced the opening of registration for scholarships for the academic year 2023   The application date for undergraduate and postgraduate students will start from 01/10/2023 until 02/20/2023, through the website of the Turkish Scholarship Authority, by filling in the information and downloading the required documents via the following website: Submission link 🛑  نے ترکش سکالر شپ برائے  2023 کیلئے اعلان کردیا ہے۔ درج ذیل لنک سے قدم بقدم اپلائی کیا جاسکتا ہے۔ YTB  https://tbbs.turkiyeburslari.gov.tr/ Important links for those wishing to apply for Turkish scholarships: ⭕ Link to apply for the Turkish scholarship: https://tbbs.turkiyeburslari.gov.tr ⭕ Guide to applying for Turkish scholarships: اپلائی کیسے کریں؟  اس لنک پہ لنک کریں  https://drive.google.com/file/d/120aSAGiQlWc5ZQdvTzARH5SCM9I-iBY5/view?usp=drivesdk ⭕Letter of Intent Guide for Turkish Scholarships:  اظہارِ دلچسپی کی درخواست   https://drive...

مولانا فضل الرحمن کیا کریں؟

 3April 2022




مولانا فضل الرحمن کیا کریں؟
کوشش کرتاہوں کہ سیاسی بکھیڑوں سے دُور ہی رہوں، کیوںکہ polorization اتنی ہوچکی ہے کہ اب چھوٹی سی بات، مذاق میں کیا ہُوا کمنٹ بھی دِلوں میں دُوریاں پیداکردیتا ہے۔ ،دُوسرا ہمارا تعلق ایک سیاسی طور پر ایک پسماندہ علاقہ سے ہے، جہاں کے افراد صرف پاکستانی سیاست دانوں کے نعرے لگاسکتے اور نخرے اُٹھاسکتے ہیں یا پھر وطن پر قُربان ہوسکتے ہیں اور بس، باقی ملک کی اعلی عدالت، سینیٹ اور اسمبلی میں کوئی اُن سے کیا پُوچھے گا، اُن بیچاروں کو تو اپنی مرضی سے کسی دوسری کمپنی کا انٹرنیٹ تک استعمال کرنے کی اجازت نہیں!
البتہ کسی خاص سیاسی یا مسلکی پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے معزز دوست لٹھ لیکر مولنا فضل الرحمن کے پیچھے پڑے ہیں، یہ اُن کا حق ہے، مولنا سمیت کسی بھی شخص سے سیاسی، علمی اور فکری اختلاف ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہیئے، البتہ نا انصافی نہ کی جائے اور تضحیک اور تمسخر کا نشانہ بنانا کوئی مثبت رویہ نہیں۔
بہت سارے دوستوں کو مولنا سے یہ شکوہ ہے کہ مولنا سیاست میں مذھب کو لے آتے ہیں ( خیر اب یہ کام تو عمران خان جو اب سابق وزیر اعظم بن چُکے ہیں، اور اُن کی ٹیم بہت زیادہ کرتی رہی، البتہ اُن سے یا اُن کے ڈیزائنر سے غلطی یہ ہُوئی کہ مولنا فضل الرحمن کے مُتبادل جِن جِن کو اکھاڑے میں اُتارتے رہے، اُن کا قد اتنا چھوٹا تھا کہ مولنا کے گھٹنوں کے برابر پہنچانے کیلئے بھی اُن کے نیچے "اینٹیں" رکھنی پڑیں!) تاہم یہ شکوہ اس لئے بھی دُرست نہیں کہ مولنا کی سیاست کی اٹھان ہی دین و مذھب سے ہے، وہ ایک مذھبی سیاستدان ہیں، اُن کی ساری جد وجہد کا حاصل ہی مذھب کی سپر میسی ہے، آپ اُن سے اختلاف کرسکتے ہیں، آپ کاحق ہے، لیکن یہ کہنا کہ وہ اپنی سیاسی تھیم سے ہی دستبردار ہوں یا مذھب کی بات نہ کریں دُرست نہیں کیونکہ ریسرچ کی زبان میں اگر کہاجائے تو ان کا پرابلم سٹیٹمنٹ یا سٹڈی گیپ ہی مذھب ہے۔ اگر وہ اس کی بات نہ کریں تو پھر کیا کریں؟ مثلا ہمارے ہاں قوم پرست بھائیوں کا اپنا ایک ناریٹیو ہے، ہمیں اُس سے اتفاق نہیں لیکن اُن سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ نیشنل ازم کی بات نہ کریں ؟ ایک عجیب سا مُطالبہ ہوگا۔ مغربی دنیا میں کتنی ہی رائٹ ونگ کی جماعتیں موجود ہیں جو اسی بنیاد پر ووٹ لیتی ہیں اور اقتدار میں آتی ہیں۔ دُور جانے کی ضرورت نہیں خُود متحدہ ہندوستان میں مُسلم لیگ بنی اور منصبِ صدارت پر سر آغاخان صاحب فائز ہُوئے تو یہ بھی ایک مذھبی پلس سیاسی جد وجہد ہی تھی، اگرچہ میں ذاتی طور پرمُسلم لیگ کے ناریٹیو اور اُن کی سرکردہ شخصیات کی سیاسی جد وجہد اور سیاسی بصیرت سے متاثر نہیں ہوسکا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مذھبی سیاسی جماعت تھی۔ اُن سے یہ مُطالبہ کرنا کہ آپ مذھب کو درمیان میں نہ لائیں ایک نادرست مُطالبہ ہوتا۔ انسائکلو پیڈیا آف برٹانیکا کا ایک اقتباس یاد آرہاہے :
The Muslim League was founded in 1906 to safeguard the rights of Indian Muslims. At first, the league was encouraged by the British and was generally favorable to their rule, but the organization adopted self-government for India as its goal in 1913.
دُوسرا شکوہ یہ کیا جاتاہے کہ مولنا نے کرپشن کی ہے۔۔۔ تو سوال یہ ہے کہ بھائی کے پی کے میں ۱۰ سال اور مرکز میں تین سال سے آپ مُسلّط رہے، مولنا کے خلاف ایکشن لے لیتے، گرفتار کرتے اور سزا دلواتے، جب اتنی پاور کے باوجود بھی آپ سے مولنا صاحب کے خلاف ایک کیس رجسٹرڈکروایا نہیں گیا تو پھر کسی دِن تنہائی میں عمران خان صاحب کو شرم دِلائیں کہ
" روسفید" تُجھے سے تو یہ بھی نہ ہوسکا!
اور حالات نےیہ ثابت کردیا کہ مولنا جس کو بارہواں کھلاڑی قرار دیکر انڈراسٹمیٹ کررہے تھے وہ آپ کے جوڑوں میں بیٹھ گئے!
تیسرا شکوہ یہ کیا جاتاہے کہ مولنا نے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کی کے اجازت نامہ پر دستخط کئے تھے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جِس مُلک میں اسامہ بن لادن پر حملہ کی اطلاع سب سے آخر میں منتخب وزیر اعظم کو ملتی ہو، وہاں مولنا فضل الرحمن جیسے اپوزیشن میں موجود کسی شخص سے کوئی کیوں اور کیا پوچھے گا، لیکن پھر بھی ایسا کُچھ ہے تو الزام لگانے والوں کو وہ دستاویزات سامنے لانی چائیں اور جے یو آئی کے دوستوں کو اِس کی وضاحت کرنی چاہیئے۔
باقی خان صاحب جِس انداز سے ایک ایک سیاسی مُخالف کی پگڑی اُچھالتے تھے اور اُن کی ۲۲ سالہ " جد وجہد" سے تیّار شُدہ فالورز نے وطنِ عزیز کے مُعاشرہ میں نفرتوں کا کلچر متعارف کروایا قوم کو شاید دیر تک اُس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ نیز جاتے جاتے جناب عمران خان صاحب نے جو غیر آئینی اقدام کیا ہے اس کو سرپرائز قرار دینا اور اس پہ خوشی منانا نوجوانوں اور اممیچور لوگوں کی طرف سے ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن جب صوبائی اور قومی لیول کے لوگ بھی اس پر بغلیں بجائیں تو دکھ یوتاہے، کیونکہ آئین کو توڑنا ہی سرپرائز ہے تویہ کام ایوب خان سے لیکر پرویز مُشرّف تک ڈاکٹیٹرز نے خُوب کیا تھا، پھر وہ قابلِ نفرت وملامت کیوں اور آپ قابل تعظیم کیوں؟
بہرحال تما انصافین دوستوں بالخصوص مذھبی انصافین سے دِلی تعزیت۔ اور اتنی گُذارش بھی کہ اب تو حکمرانی کا جو کابوس تھا وہ بھی ختم ہوگیا، اب واپس آئیے، سیاست کی صلیب ہمارے جِس جِس رشتہ کو کھاچُکی تھی، اُس کو دوبارہ سے زندہ کیجئے، اور صبر کیجئے!

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

کوہستان کے شہیدو۔۔۔۔کاش تُم افغانی ہوتے!

Never-ending problems of Hatoon Village

سیلاب ۔۔۔ ضروری پہلوؤں کو نظر انداز مت کیجئے!