Turkish scholarship ترکش سکالر شپ

Image
The Turkish Scholarship Authority, YTB, has announced the opening of registration for scholarships for the academic year 2023   The application date for undergraduate and postgraduate students will start from 01/10/2023 until 02/20/2023, through the website of the Turkish Scholarship Authority, by filling in the information and downloading the required documents via the following website: Submission link 🛑  نے ترکش سکالر شپ برائے  2023 کیلئے اعلان کردیا ہے۔ درج ذیل لنک سے قدم بقدم اپلائی کیا جاسکتا ہے۔ YTB  https://tbbs.turkiyeburslari.gov.tr/ Important links for those wishing to apply for Turkish scholarships: ⭕ Link to apply for the Turkish scholarship: https://tbbs.turkiyeburslari.gov.tr ⭕ Guide to applying for Turkish scholarships: اپلائی کیسے کریں؟  اس لنک پہ لنک کریں  https://drive.google.com/file/d/120aSAGiQlWc5ZQdvTzARH5SCM9I-iBY5/view?usp=drivesdk ⭕Letter of Intent Guide for Turkish Scholarships:  اظہارِ دلچسپی کی درخواست   https://drive...

محترم قاری حنیف ڈار صاحب کے مُحدثین عظام پر اہل بیت علیھم السلام کے ساتھ سیاسی تعصب برتنے کے کا الزام کا تحقیقی جائزہ (پہلی قسط) ?Did early Muslim narrators prejudice Ahlul- bait

     




سوشل میڈیا  کے مشہور  محترم قلمکار قاری حنیف ڈار صاحب کو محدثین عظام سے یہ شکوہ ہے کہ انہوں نے نقلِ احادیث کے سلسلہ میں اُس وقت کے حکمرانوں کی خوشنودی کیلئے  خانوادہِ نبوت علیھم السلام کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہے ۔   مضمون  میں ماضی قریب کی شخصیت کے علاوہ چونکہ کسی اور کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے،اس سے بظاہر یہ معلوم ہورہاہے کہ یہ اعتراض اُنہی کا ہے اور شاید وہ خُود کسی ذاتی تحقیق، کھود کُرید اور چھان پھٹک  کے بعد اِس نتیجہ تک پہنچے ہیں!

ذیل کی سطروں میں اسِ صاحب مضمون کے اس دعوی کو مختلف زاویوں سے دیکھا جائے گا۔ 

اس الزام میں نیا کیا ہے؟ 

نقلِ حدیث کا معیار

  اہل بیت علیھم السلام  سے نقل، حدیث کے بارے   اہل تشیع  اور اہل سنت کی کتب کے درمیان تقابل۔ 

حقیقت یہ ہے کہ یہ الزام  محترم قاری صاحب کی ذاتی تحقیق کا نتیجہ نہیں، بلکہ بہت پُرانا ہے، اور اِس موضوع پر اہل سنت اور اہل تشیع دونوں طرف سے بہت کُچھ لکھا جاچکا ہے۔ 

مثلا: اضواء علی الصحیحین دفاع عن الصحیحین، ميزان العدل بين أهل السنة والشيعة في حكم إمامة أهل البيت،  التعصب المذهبي في التاريخ الإسلامي ( مظاهره ، آثاره ، أسبابه ، علاجه)  الإمام الصادق و المذاهب الأربعة، من شبهات الشيعة حول الصحيحين: عرض ونقد،  وغیرہ وغیرہ۔ 

بلکہ  مشہور شیعہ عالم دین اور مُصنف شیخ محمد صادق النجمی کی عبارات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ محترم قاری صاحب  کا نقل کیا ہوا الزام بھی صرف چند جگتوں اور الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ شیخ نجمی ہی کی کتاب اضواء علی الصحیحین کی عبارت کا مفہوم ہے. ایک اور شیعہ مسلک کے رائٹر ڈاکٹر حسون کی یہ عبارت پڑھئے- جو انہوں نے ایک سوال کے جواب میں شیخ نجمی کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہُوئے لکھی ہے: 

انه لم يكن هناك سبب اخر غير عناد البخاري وعداوته للامام الصادق عليه السلام حيث انه لم ينقل عنه حتى حديثاً واحداً في حين ينقل البخاري عن أبي هريرة وعن عبد الله بن عمرو وعبد الله بن سلام ووهب بن منبه وكعب الاحبار المتهمين بنقل الاسرائيليات الينا. انتہی۔

اب ذرا قاری صاحب محترم کی اردو عبارت دیکھ لیجئے: 

'' دوسری جانب عروہ نے اپنی خالہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سن کر صحاح ستہ بھر دیں، کعب احبار نومسلم یہودی کی روایات جتنی روایتیں بھی  امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت نہیں" 

 اس لئے گُذارش صرف اتنی ہے کہ آپ کو علمی تنقید سے کسی نے نہیں روکا، ضرور کیجئے، ١٤٠٠ سال قبل فوت ہونے محدثین اور اِس اُمت کے بہترین دماغ فقہاء کرام کی قبروں کا ٹرائل کیجئے، البتہ اپنے اندر اتنی اخلاقی جرات پیدا کیجئے کہ  اپنے دعوی کی عمارت تعمیر کرنے کیلئے جِس فکری ملبہ سے آپ تِنکے چُن کر لائے ہیں، کم از کم لوگوں کو اُس کا پتہ تو بتادیجئے کہ میں تو صرف distributer  ہوں ۔ اصل producer تو فلاں ہے۔ ورنہ آپ اور راجا بازا کے اُس کباڑیے مین کیا فرق ہُوا جو چائنا کی چیزوں پر made in Japan کا ٹھپہ لگا کر بیچتا ہے؟ 

 حدیث نقل کرنے کا معیار کیا ہے؟ 

اہلِ سُنـت والجماعت کے نزدیک نقلِ حدیث کا معیار صحآبہ کرام میں رضی اللہ عنھم میں سے  کسی کا قدیم الاسلام ہونا، یا رسول اللہ ﷺ سے رشتہ داری یا ہجرت یا جہاد وغیرہ نہیں بلکہ اس کیلئے دو چیزوں کی ضرورت ہے اول: سب کُچھ چھوڑ کر حدیث شریف کےساتھ مشغول ہوجانا اور دُوسرا درس وتدریس( لوگوں کو احادیث پڑھانا یا سُنانا) ۔ چُنانچہ جِس نے بھی یہ دونوں چیزیں اختیار کیں، اُن کی احادیث دُوسروں  کے مُقابلہ زیادہ مقبول ہُوئیں، اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے مثلا میرے بہت بڑے اساتذہ کرام جن کے مُقابلہ میں میری حیثیت ذرہ کی بھی نہیں، لیکن اُن کے شاگرد صرف پاکستان تک محدود ہیں، جب کہ اُن کے مقابلہ میں میرے طلبہ دوست   تقریبا ٢٢ سے زائد ممالک میں موجود ہیں۔ اب اِس کا یہ مطلب کیسے نکل سکتا ہے کہ میں اپنے اُن اساتذہ سے کوئی بڑا عالم ہوں یا فلان نے تعصب سے کام لیتے ہُوئے میرے اساتذہ کو نظرانداز کردیاہے؟ 

اسی طرح بہت سارے  اہلِ علم جو اپنے علم، قابلیت  اور  ذہانت  مین مثال تھے، لیکن انہوں نے بجائے درس وتدریس کے دُوسری مصروفیات اپنالیں، یا تدریس کیلئے  کم وقت  دیا،  اِس  لئے  اُن کا علمی سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ 

صحابہ کرام  رضوان اللہ علیھم اجمعین  میں سے ہی دیکھ لیجئے حضرت عبد اللہ  عمرو بن العاص - رضی اللہ عنہ- ( جن کے بارے مشہور ہے کہ وہ اپنے والد سے صرف بارہ سال چھوٹے تھے(1)   کے بارے میں خُود حضرت ابوہرہ - رضی اللہ عنہ - کہتے ہیں کہ  تمام صحابہ کرام میں سے  ایک ہی شخص  کو مُجھے سے زیادہ  احادیث یاد تھیں،   اور وہ تھے عبد اللہ بن عمرو۔  لیکن  بعد میں  وہ شام چلے گئے اور وہاں جاکر سیاست اور اکثر ذکر وعبادت میں مشغول ہوُئے،  تدریس وغیرہ چھوڑدی، اس لئے  حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ کے مُقابلہ اُن کی احادیث  کی تعداد  کم ہے۔ 

 کیا اہل سُنت مُحدثین نے  حضرات خُلفائے ثلاثہ کے ساتھ بھی تعصب  سے کام لیا ہوگا؟ 

  اہلِ سُنـت والجماعت  کے نزدیک حضرت  ابوبکر صدیق ، حضرت عُمر فاروق رضی اللہ عنہما کی شخصیت کی اہمیت  اور فضیلت محتاجِ بیان نہیں، چُنانچہ  آپ  رضی اللہ عنہ کے بارے  اہل سنت کا اتفاق ہے کہ  آپ حضرت انبیاء کرام علیھم السلام   کے بعد  انسانیت میں سے پہلی  افضل  ترین شخصیت  حضرت ابوبکر اور دوسری عُمر فارق ہیں۔   قُرآن  کریم کی  کئی آیات حضرت ابوبکر کی فضیلت میں اور امام شاہ ولی اللہ کے بقول بیس سے زائد  آیات  حضرت عُمر  کی رائے کے مُطابق نازل ہُوئی ہیں،  جنہین موافقات عُمر کہا جاتا ہے۔ ساری زندگی  بلکہ مرنے کے بعد  رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں رہے،   نبی اکرم  ﷺ کی زندگی کا شاید ہی کو  کوئی  سفر، کوئی جہاد  اِن دونون کے بغیر گُذرا ہو،  لیکن   دُوسری طرف اگر ہم ان کی نقل کردہ احادیث  کی طرف دیکھتے ہیں تو  حضرت ابوبکر سے کُل ملاکر 142  اور سیدنا عُمر فاروق  سے  کی مرویات کی تعداد بھی حافظ ابن المقلن کی تحقیق کے مُطابق   پانچ سو  چھتیس 536) سے زائد نہیں۔  اِسی   طرح  حضرت عثمان  غنی  رضی اللہ عنہ کی  مرویات کی تعداد بھی  ڈیڑھ سو  سے کم ہیں۔  (2)

  اب اگر کوئی محترم قاری صاحب سے  یہ سوال کرے کہ "    کیا  ان محدثین  کرام نے  حضرات خلفائے  ثلاثہ کے ساتھ بھی تعصب سے کام  لیا ہوگا؟ 



(1) الذھبی، شمس الدین، محمد بن أحمد بن عثمان،  سیر اعلام النبلاء ،  بیروت: دارالکتب  ج3/80

(2) ایضا (1/ 384)) 




Comments

  1. ماشاءاللہ بہت عمدہ اور علمی تحریر 👌💕

    ReplyDelete
  2. حنیف ڈار اپنی میڈیائی پہچان بنانے کے چکروں میں ہے

    ReplyDelete
  3. ماشاءاللّٰه
    بارک اللہ و رضی عنکم ۔ کمال آرو حضرت

    ReplyDelete
  4. ماشاء الله، بہت عمدہ، بھرپور اور مدلل جائزہ ہے۔ اللہ پاک آپ کے علم، عمل، رزق اور عمر میں برکتیں عطا فرمائے۔

    ReplyDelete
  5. ماشاءاللہ ،چو مَڑنئی لِکہ چِھی۔

    ReplyDelete
  6. یہ ادھر ادھر سے الفاظ چرانے اور پھر چند روپوں کی خاطر اسے اپنے تحاریر میں شامل کرکے ۔
    مذھب باطلہ اہل تشیع اور ان کے ہمنواؤں کو خوش کرنے کا رواج بالعموم ہندوستان کے چند لکھاری علماء اور پاکستان میں ایک دو بندوں کو شدید قسم کے عالی پا رہا اسوقت بھی ۔
    خیر راجہ بازار والی بات صحیح ھے ۔
    مال چائینہ کی نام چاپان

    ReplyDelete
  7. فیس بُک پر یہ الفاظ شئیر ہونے چاہیے

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

کوہستان کے شہیدو۔۔۔۔کاش تُم افغانی ہوتے!

Never-ending problems of Hatoon Village

سیلاب ۔۔۔ ضروری پہلوؤں کو نظر انداز مت کیجئے!