Turkish scholarship ترکش سکالر شپ
![Image](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhoCPyFVJ2S95OtVWAncWI99tqlpvabXgoDrGyzubpr1_gcc54wCaLRYtGrcvNdJbohDUgLk-sBgPXMzrYhSRx9tcDalIMklZZOIi6nDuYe4y34sz8Xiy3YapVTsHD54VwkoE4pj4IH_QPSJUqhiJNl4TYD94KHw_mMUBW9njopvFw47cTxGDh_yijP/w289-h189/indir.png)
گاؤں ہاتون داس---- پچہتر سالہ کربلا!
75 سال سے زیادہ
عرصہ گُذر گیا، مُلک میں مارشل لاء، اور جمہوری دونوں طرح کی حکومتیں آئیں، بہت کچھ بدلا،
لیکن اگر نہیں بدلا ہے تو وہ میرا گاؤں
ہے، ہاتون داس ، ضلع غذر!
جب
سے میں نے ہوش سنھبالا ہے اور قلم کاغذ سے
تعارف ہوا ہے، اپنے گاؤں کے مسائل پر بار بار لکھا ہے۔ مُجھے یاد پڑتا ہے اس سلسلہ میرا پہلا کالم
2004 میں ہفت روزہ چٹان میں
ہُوا تھا، جب مرحوم حبیب
الرحمن اِس کے ایڈیٹر تھے، اُس
وقت میری عُمر
ساڑھے سترہ سال ہوگی، پھر روزنامہ محاسب، صدائے گلگت
، ماہنامہ شندور وغیرہ میں لکھا۔
آج میری عُمر کی چھتیس سال ہوگئی ہے!
لیکن اِس پُورے عرصہ میں نہ میرے گاؤں میں ڈھنگ کی سڑک بن سکی، نہ پُل اور نہ ہی پینے کیلئے صاف پانی مُیسر!
سیاسی
نمائندہ حضرات میں سے مرحوم جناب پیر کرم علی شاہ صاحب سے لیکر محترم نواز خان ناجی تک، کئی بار اس علاقہ سے بڑی تعداد میں
ووٹ لیکر منتخب ہوتے رہے، بلکہ
مرحوم پیر صاحب تو گورنر تک بن گئے، اور ناجی صاحب نے بھی تیسری بار بھاری اکثریت
سے کامیاب ہونے کا ریکارڈ قائم کرلیا، کروڑوں ، اربوں کی سکیمیں آئیں، سڑکیں بنیں، پُلوں کے ٹینڈر ہُوئے ، لیکن بقول
محسن نقوی:
ایک
ہم ہیں کہ بے برگ و نوا تیرے بعد
ورنہ
آباد ہے سب خلقِ خدا تیرے بعد!
گاؤں کے دونوں طرف دو دریا بہ رہے ہیں۔ لیکن ہمیں
پینے کیلئے پانی میسر نہیں۔ ٩ میل دور سے
ایک واٹر چینل آتا ہے، جس سے صرف رات کے
وقت لوئر سائیڈ کو پانی ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے اہل علاقہ زمینی ٹینکیاں بناکر ان
مین محفوظ کرکے مہینوں تک پرانا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ نیز بالائی طرف والے '' بعض اچھے پڑوسی" اپنے کپڑے، برتن دھونے سے لیکرکوڑا کرکٹ بھی اس
واٹر چینل میں ڈالر اس کے " وٹامنز " میں مسلسل اضافہ کرنے کی شکایتیں
بھی موصول ہوتی رہتی ہیں۔ اس لئے یہ کہا
جاسکتا ہے کہ ہاتون داس وہ کربلا ہے، جہان
کے مکینوں پر 70 سال سے پانی بند ہے!
یہاں
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چند سال قبل باسپ اور مقامی کمیونٹی کے اشتراک سے صاف
پانی کا ایک عمدہ منصوبہ مکمل ہوچکاہے، جس کی وجہ سے اہلِ علاقہ کو د میں دو بار
صاف پانی- صبح شام دوائی کی طرح - مُیسر آتا ہے۔
دوسرا ہمارے بہت ہی عزیز دوست اور معروف کاروباری شخصیت حاجی ہمت ولی نے
اپنی مدد آپ کے تحت بورنگ کرواکر گاون والوں کیلئے پانی کا محدود بندوبست بھی
کرلیا ہے۔ لیکن کاشتکاری کیلئے پانی کی شدید کمی کا مسئلہ بدستور موجود ہے۔
زمینوں
کی سیرابی کیلئے ایک عظیم اور تاریخی منصوبہ بٹولی واٹر چینل کا ہے۔ (
جسے اس سے پہلے بارہا بنانے کی کوششیں کی جاتی رہیں!
علامہ
اقبال نے " جھپٹنے پلٹنے اور پلٹ کر
جھپٹنے" کو لہو گرم رکھنے کا بہانہ بتایا تھا لیکن ، یہاں شاید لہو سے زیادہ " جیب گرم" رکھنے کا مسئلہ درپیش تھا!
ماضی قریب میں
2015 میں کریٹاس کے تعاون سے
دوبارہ اِس چینل کی تعمیر کی کوشش شروع ہوئی، اس کا
ایگریمنٹ گمسنگ کے بھائیوں کے ساتھ میں نے
خود لکھا تھا- افتتاح بھی خُود کیا
تھا، جس میں اُ س وقت اسسٹنٹ کمشنر جناب
سُلطان صاحب ، اے کے آرایس پی کے معزز ذمہ داران، سمیت
معزز اہل علاقہ نے شرکت ت کی تھی،
روزنامہ بادِشمال کے علاوہ پی ٹی وی نے بھی اس کو کور کیا تھا، ہمارے دوست اور پڑوسی حاجی
ہمت ولی نے اپنی نگرانی میں بہت شاندار کام کروایاتھا لیکن فنڈز کی قلت کی وجہ سے
یہ کام پورا نہ ہوسکا)
اب
کی بار ایفاد ے ایک خطیر رقم مہیا کی ہے، چینل کا کام تقریبا آخری
مراحل میں ہے، اگرچہ وعدہ کے مطابق یہ چینل2021
میں مُکمل ہوناتھا لیکن بعض غیر متوقع
وجوہات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔ اب آخری اطلاعات کے مُطابق نوے فیصد کام مکمل ہوچکاہے۔ لیکن پھر بھی "
بہت سے مرحلے ہیں، صبح کے ہنگام سے پہلے " کا معاملہ درپیش ہے!
اس
سلسلہ میں میڈیا سے وابستہ دوست ہماری آواز بنیں، سیاسی
نمائندہ حضرات سے گذارش ہے کہ وہ
ہمارے لئے دُعا کریں، اور اگلے الیکشن میں دوبارہ عوام کو " عقل
مند" بنانے کیلئے کوئی نئی چال سوچیں
،کیونکہ ڈھنگ کا کوئی کام تو اُن سے ہو نہیں پارہا!
اس
بارے میں باقی معزز سیاسی نمائندہ نمائندوں سے
تو کوئی خاص اُمید نہیں تھی، اِس
لئے شکوہ بھی نہیں، لیکن افسوس کہ نواز ناجی صاحب جیسے تعلیم یافتہ، صاف گو اور بے
باک شخص بھی کوئی قابلِ تقلید روایت قائم نہیں کرسکے!
نجانے ایسا کیوں لگتاہے کہ ہمارے سیاسی نمائندگان اور ایڈمنسٹریشن
کا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ جب تک
اُن کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگیں، پتُلے نہ جلائے جائیں، بد دعائیں اور گالیاں
دیکر نفرت کا اظہار نہ کیا جائے اس وقت تک کچھ نہ کرنے کی قسم کھائی ہے۔
غالب یاد آجاتے ہیں:
پی
جِس قدر ملے شب مہتا ب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے!
ایک خوش آئند ہ بات یہ ہے کہ اب نوجوانون میں شُؑور بیدار ہوچُکا ہے، وہ اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنا جانتے ہیں، اُمید ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہوگی!
اس لئے گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری جناب محی الدین وانی صاحب سے خصوصی درخواست ہے کہ وہ اِس تاریخی منصوبہ کی نگرانی کریں، اور اپنی زیر نگرانی اِس کا آڈیٹ کروائیں اور جلد از جلد منصوبہ کی تکمیل کو یقینی بنائیں! اگر یہ منصوبہ شفاف طریق سے مکمل اور کامیاب ہوجاتاہے تو آئندہ کی نسلیں آپ کیلئے دُعا گو رہیں گی!
ماشااللہ
ReplyDeleteبہت شکریہ علی بھائی ۔
Deleteیار تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ہر طرح کی وابستگی سے بالا ہوکر علاقہ کیلئے کچھ سوچنے کی ضرورت ہے
Delete