Turkish scholarship ترکش سکالر شپ
![Image](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhoCPyFVJ2S95OtVWAncWI99tqlpvabXgoDrGyzubpr1_gcc54wCaLRYtGrcvNdJbohDUgLk-sBgPXMzrYhSRx9tcDalIMklZZOIi6nDuYe4y34sz8Xiy3YapVTsHD54VwkoE4pj4IH_QPSJUqhiJNl4TYD94KHw_mMUBW9njopvFw47cTxGDh_yijP/w289-h189/indir.png)
اتنی بات تو خوش آئند ہے کہ گلگت
بلتستان کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ لوگوں نے شہر میں گزشتہ دنوں رونما ہونے فساد
کی مذمت کی ہے اور قوم کو یہ " بریکنگ نیوز" دی ہے کہ وہ تو ماشاءاللہ
انتہائی شریف، نرم دل اور امن پسند ہیں، جبکہ یہ سارا کیا کرایا تو بس " چند لوگوں"
کی کارستانی ہے!
کی مرے مرھ کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زُودَ پشیماں کا " امن پسند " ہونا!
لیکن
سوال یہ ہے کہ یہ امن پسند اور سرکردہ حضرات اور ان کے فالورز اس وقت کہاں
نیپال کے جنگلوں میں تشریف لے گئے تھے جب یہ آگ وخون کی ہولی کھلی جارہی تھی؟
یہ
سانحہ جس مین تین چار قیمتی جانیں چلی گئیں؛ پھول جیسی جوانیاں مسل دی گئی ہیں، یہ
امن پسند حضرات ہمیشہ اس طرح کے سانحات کے بعد ہی کیوں اپنی امن پسندی کا اعلان
فرماتے ہیں؟
ان
جوانوں کی مائیں کسی محترم آغاصاحب کسی محترم ذاکر صاحب اور کسی محترم مولنا
صاحب سے یہ پوچھ سکتی ہیں کہ جناب دین اسلام کا وہ کونسا اتنا ہی ضروری فرض اور
حکم تھا کہ اس کو قائم کرنا ضروری تھا، کس کیلئے تم نے میرا چمن اجاڑا؟
دینِ اسلام کی وہ کونسی عبادت تھی جو
آپ کی مسجد میں ادا نہیں ہوسکتی تھی اور اس کی ادائیگی کیلئے روڈ پر نکلنا
واجب تھا؟؟
کیا سیرت النبی ﷺ کا مُبارک عنوان ہو یا حضرات اہل بیت و صحابہ کرام رضی
اللہ عنھم – کے فضائل اپنی عبادتگاہوں اور مذہبی مقامات کی بجائے بازار،
مارکیٹوں اور تعلیمی اداروں
میں سارا نظامِ زندگی جام کرکے بیان کرنے سے ثواب یادہ ملتا ہے؟؟
حالانکہ ہم نے تو پڑھا ہے کہ مدینہ منورہ میں جب بارش بھی
ہوجاتی تو رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اذان میں اعلان کرواتے تھے کہ کلمہ
شہادت کے ںعد سب اہم ترین عبادت نماز بھی اپنے اپنے گھروں میں ادا کیا کرو، باہر
بارش ہورہی ہے، تاکہ کسی کو کوئی نقصان نہ ہوجائے!
جہاد کے سفر سے واپسی پر اعلان فرماتے ہیں یادرکھو جس کی وجہ سے انسانوں یا حیوانوں کیلئے راستہ بند یا تنگ ہوجائے تو اس کا جہاد -جہاں جان لینی اور دینی پڑتی ہے- خدا کو منظور نہیں! لیکن ہمارے ہاں دین ومذھب جو انسانیت کی بھلائی کیلئے آیا تھا، کو عذاب بناکر پیش کیا جاتاہے، اور افسوس کہ یہ کام کوئی سیکولر، کوئی کمیونسٹ یا لبرل نہیں کررہا، بلکہ وہی جبہ ودستار کے مالک کررہے ہیں جن کی ذمہ داری دین کی نشرواشاعت ہے۔ سیرت کے پروگرام ہوں یا محرم کے جلوس، رمضان میں ختم قران کے جلسے ہوں کوئی اور مذھبی تقریب؛ آخر اس میں بڑے بڑے لاؤڈ سپیکر لگاکر لوگوں کو تنگ کرنے، دوسرے فرقے کو لتاڑنے سے لیکر مارکیٹ ہسپتال، راستے سب کچھ بند کرنے تک جب تک مذھب انسانوں کیلئے وبال جان بناکر پیش نہ کیا جائے ہمیں چین کیوں نہیں آتا!
اب ہم لوگوں کو لاکھ بتائیں، سمجھائیں کہ مذھب سراپا رحمت، امن اور سلامتی کا نام ہے، جس ماں کے نوجوان بیٹوں، جس باپ کے سہاروں اور جس بھائی کے بازوں کو یوں سرعام ماردیا گیاہو وہ کیسے یقین کرلیں گے؟؟؟
نیز گورنمنٹ اور سیکیورٹی پر مامور اداروں میں سے کوئی اس قوم کو بتانے کی زحمت کرے گا کہ اس حادثہ کے پیچھے اسباب کیا تھے؟ کس نے ابتدا کی ؟ اور گلگت جیسے چھوٹے سے شہر میں کھلے عام اتنا اسلحہ کہاں سے آیا اور استعمال کیسے ہوا؟
جن ماں باپ کے لعل ایسے سانحات کی نذر ہوجائیں تو کیا آئندہ کیلئے وہ اپنے بچوں یا بھائیوں کو کسی دینی اجتماع بلکہ فرض کی ادائیگی کیلئے بھیجیں گے؟
جس بیچاری ماں کا جوان بیٹا چلاگیا ہے، پورا گلگت بلکہ پوری دنیا بھی مل کر اس کی تعزیت کرے، اس کے سامنے امن پسندی کے نعرے لگائے ،اس کے جگر کا زخم ٹھیک ہو جائے گا؟
ایسی اوٹ پٹانگ حرکتوں کو دیکھ کر اگر نوجوان نسل الحاد کی طرف
مائل ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟
آخری سوال یہی ہے کہ جب تمام مکاتب فکر کے سرکردہ حضرات اور ان
کے فالورز تو امن پسند اور شریف لوگ ہیں تو پھر یہ فساد شاید بقول عبدالخالق تاج
کے ان کے اور جان علی کی وجہ سے ہوا ہوگا!
آخر ہم کب تک خود کو اور لوگوں کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟
مُجھے رہزنوں سے گلہ
نہیں تیری رہبری کا سوال ہے!
اللہ تعالی' آپ کو حق گوٸی کے اجر عظیم سے نوازے۔ بہت حقیقت پسندانہ اور چشم کشا تحریر مرحمت فرماٸی۔ دعا ہے تمام مسلکی اکابرین اپنی انا ، رعب داب ، غلط فہمیوں اور علمی کوتاہ بینیوں کے خول سے نکل کر آپ جیسے زیرک اور معتدل مزاج علمإ کی باتوں پہ بھی توجہ مرکوز فرماٸیں۔
ReplyDeleteAmin 🌹 Thank you so much dear.
Deleteآخر کب تک ہم خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟
اس لئے ہمیں یہ سوالات اٹھانے پڑیں گے، احترام، ادب اور نرمی کے ساتھ
bohut achi tehreer ha sahib
ReplyDeleteماشاءاللہ آپکے سوالیہ نشانوں نے ھماری آنکھیں کھول دی
ReplyDeleteحق گو اشخاص ڈھونڈنے سے بھی بھت کم ملتے ھے اللہ تعالی آپکو جزاۓ خیر دے
Allah pk apki Ümer main barkat ata frmay
Deleteاستاذ محترم بہت اعلی تحریر.
ReplyDeleteجسے پڑھ کے بہت کچھ حاصل ہوا.
جزاک اللہ خیرا
Deleteامیر شہر سے گلہ مت کرنا یہ
Deleteسر کا بوجھ نہیں سر اتاردیتے ہیں
Wah wah wah hazrat
DeleteMaşa'Allah
ReplyDelete