Turkish scholarship ترکش سکالر شپ
![Image](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhoCPyFVJ2S95OtVWAncWI99tqlpvabXgoDrGyzubpr1_gcc54wCaLRYtGrcvNdJbohDUgLk-sBgPXMzrYhSRx9tcDalIMklZZOIi6nDuYe4y34sz8Xiy3YapVTsHD54VwkoE4pj4IH_QPSJUqhiJNl4TYD94KHw_mMUBW9njopvFw47cTxGDh_yijP/w289-h189/indir.png)
مشہور سکالر پروفیسر سید طفیل ہاشمی صاحب کا اصرار ہے کہ مولنا ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ پر ساداتِ دیوبند کی تنقید '' دعوتی لہجہ اور فتوی کی زبان" میں فرق نہ کرنے کا شاخسانہ اور بعد میں اس موضوع پر جو کچھ لکھاگیا وہ " اکابر پرستی " کا آئینہ دار ہے.
پروفیسر صاحب بڑے آدمی ہیں، اور میرے جیسے طلبہ کیلئے استاذ کا درجہ رکھتے ہیں ( میں ذاتی طور پر دل سے اُن کا احترام بھی کرتا ہوں) لیکن جو Sweeping statement انہوں نے دی ہے، اُسے سوائے " دعوی" یا لطیفہ کے کُچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس میں شک نہیں سید مودودی - رحمہ اللہ - پہ بعض ایسے لوگوں نے بھی تنقید کے نام پر صفحات سیاہ کئے، جن کا قد کاٹھ یقینا سید مودودی کے قدموں تک بھی نہیں پہنچتا تھا، لیکن ظاہر ہے کہ ایسی غیر سنجیدہ تحریروں یا تقریروں کی وجہ سے سنجیدہ علمی نقد کو بھی بیک جنبش قلم " کلامی اور دعوتی لہجہ " میں خلط ملط قرار دینا ناانصافی سے بھی آگے کی بات ہے۔ لیکن یہ رویہ صرف دیوبند مکتب فکر کی طرف منسوب چند لوگوں تک ہی محدود ہی نہیں بلکہ کیا ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے، سب اسی زلف کے اسیر ہوئے " والا عالم ہے! لیکن ظاہر ہے کہ ایسی تحریریں یا تقریریں انہی لوگوں کی ذاتی رائے شُمار ہوتی ہیں، اجتماعی موقف نہیں۔ ماضی قریب میں جب علامہ ابوالحسن ندوی - رحمہ اللہ - کی کتاب " عصر حاضر میں دینِ اسلام کی تعبیر وتشریح " ( جس میں حضرت نے سید مودودی کی بعض تشریحات پر تنقید کی ہے) چھپی تو خُود علامہ ابوالحسن علی الندوی جیسی نستعلیق شخصیت کے بار ے اُس زمانہ کے جماعت اسلامی سے وابستہ حضرات نے ایسا ہی رویہ اپنایا تھا۔ چُنانچہ علامہ ندوی خُود لکھتے ہیں:
ان اضا فوں کی ضرورت کا احساس اُن خطوط کے پڑھنے کے بعد خصوصیت کے ساتھ جو جماعت اسلامی ( ہندوستان) کے حلقہ کے زیادہ تر رفقاء ومتفقین اور کم تر ارکان اور ذمہ داروں کی طرف سے مصنف کو موصول ہوئے، جن میں اس کتاب پر جذباتی انداز میں شدید ردعمل کا اظہار کیاگیا تھا اور بعض خطوط میں مصنف کی نیت پر بھی ذاتی حملے بھی تھے( ص 11 )
ان مُختصر سی گُزارشات کے بعد عرض ہے کہ " بیشک سید مودودی مرحوم پر تنقید کرنے میں کُچھ لوگوں نے علمی دیانت یا لہجہ کا پاس نہیں رکھا ہے، لیکن اِس سے نتیجہ نکالنا کہ سادات دیوبند کی طرف سے جو کُچھ ہوا ہے وہ صرف " دعوتی لہجہ اور کلامی بحث " کو ایک ہی نظر سے دیکھنے کا نتیجہ ہے۔ بذاتِ خُود ایک غیر علمی رویہ اور دعوی ہے۔
مثلا کوئی بھی صاحب
انصاف ابھی جاکر تفہیم القرآن کھول کر سورہ ص کی آیت " والقینا علی
کرسیہ جسدا" کی تفسیر میں مولنا مودودی رحمہ اللہ نے جو کچھ لکھا ہے اُس کو
پڑھ لے( جہاں مولنا مرحوم نے صحیحین کی حدیث کو صرف اس لئے ناقابل قبول قراردیا ہے
کہ وہ عقل کے خلاف ہے۔ حالانکہ کوئی بھی مُعجزہ یا کرامت خارقِ عادت ہی ہوتا ہے) پھر اِس پر مخدوم مکرم مفتی تقی عثمانی صاحب کی تنقید پڑھ لیجئے، یا
علامہ ندوی رح نے جو " عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح" کے عنوان سے
جو تنقید فرمائی ہے۔ یا مولنا منظر نعمانی رح جو نقد کیا ہے، اس کو بھی دیکھ
لیجئے اور پھر ہاشمی صاحب الفاظ بھی پڑھ لیجئے " فتوی اور
دعوت" کے درمیان فرق نہ کرنے کا دعوی سوائے لطیفہ کے اور کیا لگے گا؟
اس لئے آئیے علامہ ندوی کے
انہی الفاظ پر اتفاق کرتے ہیں: نقد واحتساب کا حق ایک مُشترک حق ہے، جس سے
ہر ایک کام لے سکتاہے، اور اِس سے کسی صاحب علم ونظر کو محروم نہیں کیاجاسکتا، صحت
مند تنقید اور منصفانہ اظہار خیال پر بلدیہ کا بے لچک قانون " One way traffic سواریاں صرف جائیں، آئیں نہیں " لاگو نہیں
ہوسکتا!
آپ تنقید ضرور کیجئے، دیوبند مکتبِ فکر سے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیجئے لیکن پورے مکتب فکر کو بیک جُنبش قلم غلط فہمی کا سزاوار ٹہرانا وہی رویہ ہے جس کی آپ خُود مُذمت کرتے ہیں۔
بالکل۔۔۔آپ نے سولہ آنے درست کہا۔۔۔ تنقید بھی اخلاقی دائرے میں ہونی چاہئے۔۔۔اظہار آزادی رائے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ شتر بے مہار کی طرح بس چلتے چلے جائیں۔۔۔
ReplyDeleteبہت خوب گرفت کی ہے۔۔۔ اللھم زد فزد۔۔۔
جاندار تبصرہ ورہنمائی۔
ReplyDeleteاستاذ جی اعتدال کوئی آپ سے سیکھے🤲🤲🤲❤️
ReplyDelete