Turkish scholarship ترکش سکالر شپ
![Image](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhoCPyFVJ2S95OtVWAncWI99tqlpvabXgoDrGyzubpr1_gcc54wCaLRYtGrcvNdJbohDUgLk-sBgPXMzrYhSRx9tcDalIMklZZOIi6nDuYe4y34sz8Xiy3YapVTsHD54VwkoE4pj4IH_QPSJUqhiJNl4TYD94KHw_mMUBW9njopvFw47cTxGDh_yijP/w289-h189/indir.png)
دیار بکر، صحابہ کرام کے وفاء وایثارکا شاہد عدل!
ترکی طوروس(Taurus mountains) کے پہاڑوں سے پھوٹنے
والے مشہور زمانہ دریائے دجلہ کے پہلو میں آباد دیار بکر کئی تہذیبوں کا امین، کئی
ثقافتوں کا چشم دید گواہ ہے، یہان کی مٹی نے آشوریوں(Assyria) آرمینیا، آخمینیا( Achaemenid Empire) سلوقیوں(Seleucid Empire) رومانیوں(Romanians) بیزنطیوں(Byzantine Empire) پرشین(Persian Empire) ساسانیوں(Sasanian Empire) بادشاہتوں، ثقافتوں اور حکومتوں کے ساتھ ساتھ اسلامی دور حکومت بھی
دیکھاہے، اس کے درو ودیوار پہ موجود کئ تہذیبوں کے آثار آج بھی اس بات کی گواہی دے
رہے ہیں کہ لِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ( آسمان وزمین کا اصل مالک
و وارث خلاق عالم کے سوا کوئی دوسرا نہیں)
دائرہ المعارف کے مطابق
آشوری نصوص(Assyria
texts) میں اس شہر کانام آمید
ذکر ہوا ہے، بعد ازاں تیرہوں صدی قبل مسیح میں یہ شہر آرامی بادشاہوں کا پایہ تخت
ٹھہرا، اس کے بعد آشوریوں، پھر اخمینیوں، اور سلوقیوں سے ہوتا ہوا رومن ایمپائر کے
ہاتھ آیا، اور اپنے مضبوط قلعوں کی وجہ سے عسکری مرکز ٹھہرا، 359 میں ساسانی
بادشاہ نے 73 دنوں تک کے طویل محاصرہ کے بعد اس کو فتح کیا۔
دیار بکر میں اسلام کے
مہر منیر کا طلوع!
امام واقدی رحمہ اللہ
کے بقول سیدنا ابو عبیدہ عامر بن الجراح اور خالد بن الوليد کے ہاتھوں جب شام اور
سیدنا عمرو بن العاص بن وائل السهمي رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں کوہ ودمن پر اسلام کا
پرچم لہرایا تو امیر المومنین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے ایک خط سیدنا ابو
عبیدہ کے نام اور دوسرا خط سیدنا عیاض بن الغنم السلمی رضی اللہ عنھم کے نام لکھا،
حصول برکت اور عربی ادب سے وابستہ اھل علم کی دلچسپی کیلئے ہم یہاں وہ دونوں مکتوب
نقل کئے دیتے ہیں:
بسم الله الرحمن الرحيم
من عبد الله عمر أمير المؤمنين إلى عامر بن الجراح سلام عليك فإني أحمد اليك الله
الذي لا إله إلا هو واصلي على نبيه محمد صلى الله عليه وسلم أما بعد فقد أجهدت
نفسك في قتل الكفار وسارعت إلى رضا الجبار وقدمت لك ما تجده يوم عرضك ولم نر منك
يوما معرضا عن أداء فرضك وقمت بسنة نبيك وجاهدت في الله حق جهاده تقبل الله منا
ومنك وغفر لنا ولك فإذا قرأت كتابي هذا فاعقد عقدا لعياض بن غنم الأشعري وجهز معه
جيشا إلى أرض ربيعة وديار بكر وإني أرجو من الله سبحانه وتعالى أن يفتحها على يديه
وأوصيه بتقوى الله والجهاد والاجتهاد في طاعته ولا يلحقه التواني في الجهاد ويتبع
سنن المؤمنين المجاهدين وما أمر به سيد المرسلين مما أنزل عليه رب العالمين: {يَا
أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ} [التوبة: 73,
التحريم: 9] والسلام عليك وعلى جميع المسلمين ورحمة الله وبركاته۔
عربی عبارت کا اصل لطف
تو عربی دان حضرات ہی اٹھا سکیں گے، تاہم موضوع کو سمجھنے کیلئے خط کا آزاد ترجمہ
یا خلاصہ عرض کیا جاتاہے۔
'' حمد وصلاۃ کے بعد آپ نے
اللہ تعالی کی خوشنودی کیلئے کفار سے لڑنے میں بہت تکلیف جھلیں اور مشقتیں اٹھائی
ہیں، اورایسے گرانقدر صالح اعمال صالحہ کا توشہ آگے بھیجاہے ہیں جو آپ کو روز
حشرضرور ملے گا، ہم نے آج تک آپ کو اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی
کرتے نہیں پایا، بلکہ اس کے برعکس آپ اپنے رسول اکرمﷺ کی سنت کی اتباع اور راہ
خداہ مین جہاد کرتے ہوئے پایاہے، اللہ تعالی آپ کے اور ہمارے اعمال صالحہ کو شرف
قبولیت سے نوازے، میرا یہ خط پڑھنے کے بعد فورا ہی عیاض بن غنم اشعری کے ساتھ مل
کر لشکر تیار کرکے سرزمین ربیعہ اور دیاربکر کی طرف پابہ سفر ہوجائے، مجھے اللہ
تعالی سے قوی امید ہے کہ اللہ تعالی ان کے ہاتھوں اس کی فتح مقدر فرمائیں گے، میں
ان کو اللہ سے ڈرنے، اور راہ خداہ میں جہاد کرنے، اور اس کی اطاعت کی بھر پور کوشش
کرنے کی وصیت کرتاہوں، میدان جہاد میں کسی قسم کی سستی نہ دکھانے، مسلمان مجاہدین
کے نقش قدم پر چلنے اور ارض وسما کے رب کے ربکیطرف سے سرور انبیاء علیھم السلام پر
اتارے گئے گئے احکام کی پابندی کی وصیت کرتاہوں۔( اے نبی کفار اور منافقین سے جہاد
کیجئے)
والسلام علیکم ورحمۃ
اللہ وبرکاتہ
امیر المومنین سیدنا
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ خط لیکر جب ساعدہ بن قیس سیدنا ابو عبیدہ کے پاس
مقام طبریہ پہنچے تو سیدنا ابوعبیدہ نے اس خطاب فاروقی کا خیر مقدم کیا اور سیدنا
عیاض بن غنم الاسلمی (رضی اللہ عنھم ) کے
کمانٖڈ میں آٹھ ہزار کا لشکرجرار تیار کروایا، جن میں ایک ہزار تو صرف وہ خوش قسمت
تھے جنہیں ایمان کی حالت میں روئے مصطفی ﷺ کی نہ صرف زیارت کا شرف حاصل ہواتھا،
بلکہ اپنے کریم رب سے رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ( رب ان سے اور وہ اپنے رب سے راضی)
جیسا پروانہ بھی حاصل کرچکے تھے۔
اس لشکر محمدیﷺ میں
شریک ہونے والوں میں خالد بن الوليد، نعمان بن المنذر، ضرار بن الازور بن سابق،
ضمرة وعمرو بن ربيعة وذو الاداغير بن قيس، الحكم بن هشام اليسع بن خلف، طلحة وعامر
بن بهرام، مقداد بن الاسود،عمار بن ياسر وعبد الله بن يوقنا
رضی اللہ عنھم شامل
تھے۔
یہاں ایک اور دلچسپ امر
یہ ہے کہ مسلمانوں کے زیر نگیں علاقوں میں امن وسکون، خوشحالی اور خود مسلمانوں کی
دیگر خوبیوں کی وجہ سے جہاں ایک طرف دیگر مذاھب کے لوگ بھی اھل ایمان کے ان اوصاف
حمیدہ سے متاثرتھے، وہاں یہ لوگ بازنطینی ) )orthodoxآرتھوڈوکس(
کے ناروا سلوک ورویہ سے
سخت نالاں تھے، مشہوربرطانوی، امریکی مورخ برناٹ لویس
)Bernard Lewis(
لکھتے ہیں، کہ مصر اور
شام کے عیسائی بیزنطینی سلطنت کی رعایا بننے کی بجائے اسلامی خلافت کے زیر نگیں
ہونے کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
Some even the
Christian population of Syria and Egypt preferred the rule of Islam to that of
the Byzantines.
ترجمہ: یہاں تک شام اور
مصر کے بعض عیسائی شہری بھی اسلامی خلافت کو بازنطینی حکومت پر ترجیح دیتے تھے۔
بلکہ ایک اورغیر مسلم
مورخ لیوجھینکو
Levchenko MV.
نے لکھاہے کہ فلسطینی
عیسائیوں نے مسلمانوں کے نام ایک خط بھیجاتھا، جس میں انہوں نے لکھاتھا کہ باوجود
اس کے بیزنطی ہمارے ہم عقیدہ اور عیسائی ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی آپ کو ان پر
ترجیح دیتے ہیں، مشہور ترکش سکالر عبدالعزیز یاکتن ان کا خط نقل کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:
Ey müslümanlar!
bizanslılar bizim dinimizde
bulunmakla beraber sizi onlara tercih edriz. çünkü siz bize verdiğiniz sözleri tuttunuz.
bize daha merhemetlisiniz. bize karşı adalersizlikten sakınırsınız. Sizi1n idareniz
onlarınkinden elbette daha
iyidir.
ترجمہ: اے مسلمانو! بیزنطینیوں کے ہمارے ہم
مذھب ہونے کے باوجود ہم آپ لوگوں کو ان پر ترجیح دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ
ہمارے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں، ہمارے ساتھ آپ کا رویہ ان کے بہ
نسبت زیادہ شفقت و مرحمت والا ہے، آپ ہمارے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہیں کرتے،
اور آپ کا امور مملکت کو چلانے کا اسلوب یقینا بیزنطینوں سے بہت بہتر ہے!( والفضل
ماشھدت به الأ عداء)
حضرت عیاض بن غنم رضی
اللہ عنہ آٹھ ہزار کا لشکر جرار لیکر 7 جمادی
الآولی 17 ہجری بمطابق 638م دیار بکر آئے، اس وقت
دیاربکر کا مشرقی حصہ بطروس اور مغربی حصہ یوحنا نامی دوبھائیوں کے زیر نگیں تھا،
یوحنا مطراوس نامی بادشاہ کی بیٹی مریم سے شادی کرکے اسے دارا سے آمد(دیاربکر) لے
آیاتھا، بعد ازاں ان دونوں بھائیوں نے آپس کی چپقلش کی وجہ سے اپنے اپنے حصہ سلطنت
کو علیحدہ کرلیا،اور حکومت کرنے لگے، شہزادی مریم نے دونوں بھائیوں کی ابہم رنجش
سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی حکومت کا اعلان کیا، اور بیزنطیوں کو چونکہ امبراطور
ہرقل (610، 641)کی سرپرستی حاصل تھی،اس لئے شہزادی مریم دارا 12سال تک اس علاقہ پر
حکمران رہیں۔ شہزادی مریم دارا کی حکومت کے آخری سال اسلامی لشکر نے سیدنا عیاض بن
غنم کی سرپرستی میں دیاربکر کی سرزمین پر قدم رکھا۔
دیاربکر کا محاصرہ!
چونکہ پورا شہر چاروں
طرف سے مضبوط اور اونچی فصیلوں کے درمیان واقع ہے،( جو اب سور کہلاتاہے، بمعنی
فصیل) اور دروازہ کے علاوہ شہر میں داخل ہونے کا کوئی راستہ موجود نہ تھا، اس لئے لشکر
اسلام نے پہنچنے نے کے بعد مجبورا اس کامحاصرہ کرنا پڑا، اور یہ محاصرہ پانچ ماہ
تک جاری رہا، چونکہ اس شہر فصیل کے مختلف دروازے ہیں، اس لئے محاصرہ کی ترتیب یوں
رکھی گئی کہ کمانڈر انچیف سیدنا عیاض بن غنم اپنے چند جانبازوں کے ساتھ باب ماردین
Mardin Kapı یا Tell kapı جسے مقامی زبان میں
کہاجاتاہے، اور سیدنا سعیدبن زید چند شہسواروں کے ساتھ باب اورفا
) Rum kapı/ Rum kapı(
سیدنا معاذبن جبل نے
چند جانثاروں کے ساتھ باب الجبل یعنی
Cebel kapı/dağ kapı
اور سیف اللہ سیدنا
خالد بن ولید نے مجاہدین ایک جماعت کے ساتھ باب المائی یعنی
Yeni/Dicle kapı
کا محاصرہ کئے رکھا۔
(رضی اللہ عنھم وارضاھم )
شہزادی مریم نے جب
مسلمانوں کے لشکر کو شہر کا محاصرہ کئے دیکھا تو قلعہ کے اندر موجود کلیسا میں
تمام ارکان دولت، عوام اور مذھبی قیادت کو جمع کرکے ایک جذباتی خطاب کیا، جس کاخلا
صہ یہ ہے کہ"
عرب تمہاری سرزمین پر
نہ صرف قدم رکھ چکے ہیں، بلکہ مختلف اطراف میں اپنے لیئے قرار گاہیں بھی تعمیر
کرچکے ہیں، اب تمہارے سامنے دو ہی راستے ہیں، یا تو ان لوگوں کو اس ملک کے سیاہ
وسفید کا مالک بننے دو، تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہاں سے حضرت یسوع مسیح کے دین
کاخاتمہ ہوجائے، چونکہ یہ شہر پورے قسطنطنیہ کیلئے دروازہ کی حیثیت رکھتاہے،اس لئے
اس کے بعد وہ پورے قسطنطنیہ پر بآسانی قبضہ کر سکیں گے، اور دوسرا راستہ اپنی
دھرتی، دین اور ناموس وآبرو کیلئے لڑ کٹنے کا ہے، اس وقت دین یسوع، عیسائی بوڑھے
بچے سب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، اس لئے اپ فصیلوں پہ چڑھ کے ان سے نبرد آزما ہوں،
یہ عرب لوگ اگر سوسال تک بھی یہاں رہے تو ہماری سرزمین پر قبضہ نہیں کر سکیں
گے!کیونکہ ہمارے پاس کھانے پینے سمیت تمام ضروریات زندگی مضبوط فصیلوں کے حصار میں
آباد شہر میں موجود ہے!
شہزادی مریم دارا کے اس
خطاب نے ارکان دولت، عوام حتی عیسائی راہبوں تک کی رگوں میں لڑائی کا جذبہ بھر
دیا، اور لوگوں نے اسلحہ، منجنیق ودیگر جنگی سازوسامان تیارکیا، فصیلوں پر چڑھ کر
طبل جنگ بجادیا۔
ادھر لشکر محمدیﷺ کے
کمانڈر انچیف نے جب ان لوگوں کی جنگی تیاریاں دیکھیں تو اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے
کہاکہ:
جان لیجئے کہ یہ شہر
متنوع اور مخلتف صفات کا حامل ہے، اگر اللہ تعالی نے اس کی فتح ہمارے ہاتھوں مقدر
فرمائی تو ان شاء اللہ یہ پورے قسطنطینیہ کے طول وعرض پر پرچم اسلام لہرانے کیلئے
سنگ میل ثابت ہوگا۔
اسی دوران سیدنا خالد
بن ولید رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:
جناب کمانڈر انچیف! آپ
سے زیادہ کون جانتاہے کہ ہم اھل اسلام کے سر جہاں جہاں فتح وظفریابی کا سہرا سجا
ہے، اس کے پیچھے کسی مادی طاقت، ظاہری اسلحہ یا جنگی ساز وسامان کی نہیں بلکہ نصرت
الہی اور سید الانبیاء، پیارے محمد عربیﷺ کی برکت کی کار فرمائی رہی ہے، ہمارے
ساتھ اللہ کی مدد اور دین کو غالب کا وعدہ ہے، اگر یہ لوگ شہر سے نکل کر کہیں ہم
سے دودوہاتھ کرنے پر آمادہ ہوتے تو یقینا اس سے ہمارا کام بہت آسان ہوتا، لیکن یہ
لوگ بہت مضبوط قلعوں اور فصیلوں کے سایہ میں ہیں، اس لئے ہمیں بہت زیادہ صبر و
استقامت سے کام لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ صبر کا نتیجہ کامرانی و کامیابی
ہواکرتاہے، اس لئے جناب والا میری آپ سے گذارش ہے کہ اپ اس خاتون کو ایک خط لکھیں،
جس میں دین اسلام کی حقانیت کے علاوہ ترہیب وترغیب اور وعد وعید بھی موجود ہوں،
مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ ضرور ہماری مدد فرمائیں گے۔
قلعہ کو فتح کرنے کی
سفارتی کوشش! سیدنا عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ نے ملکہ کے نام خط لکھ کر تسلیم ہونے
کا مطالبہ کیا، ایک سپاہی خط لیکر قلعہ کے پاس پہنچا اور خط دکھایا تو انہوں نے
ایک رسی پھینکی جس میں خط باندھ کر ان کے حوالہ کیا گیا، اور جواب کا نتظار کرنے لگا،
تھوڑی دیر میں ملکہ نے ترجمان کے ذریعہ خط پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اس کا جواب
لکھا، جس میں واضح انکار اور تسلیم ہوکر ذلت قبول کرنے کی بجائے موت کو گلے لگانے
کے ساتھ ساتھ لشکر اسلام کو یہاں سے فورا نکل جانے کا حکم تحریر تھا۔
نصرت خداوندی کا ایک
عجیب واقعہ!
سیدنا خالد بن ولید رضی
اللہ عنہ بھی دوسرے کمانڈروں کیطرح دن گھوڑے کی پشت پر سوار ہوکر قلعے کے گرد
جھپٹنے پلٹنے کی کوئی سبیل، اور جانبازوں کا لہو گرم رکھنے کا بہانہ ڈھونڈتے گذار
دیتے، اور شام کو اسی مالک وخالق کے سامنے تسبیح و مناجات میں مصروف ہوجا تے، جس
کے دین کی سربلندی کا سودا عرب کے ریگزاروں سے انہیں آمد کے مرغزاروں تک کھینچ
لایاتھا! لیکن چار ماہ گذر گئے، قوم رسول ہاشمیﷺ کے شاہین مسلسل محاصرہ کئے ہوئے
ہیں، لیکن بیزنطینی پرچم کے سر نگوں ہونے کے کوئی آثار نظرنہیں آئے تو خالد بن
ولید رضی اللہ عنہ نے مدد خداوندی کیلئے روزے رکھنے شروع کردیے، سینکڑوں جنگوں کے
کمانڈراور دربار نبوی(ﷺ) سے اللہ کی تلوار کا لقب پانے والے اس مرد مجاہد کا سامان
سحر وافطار کیا تھا؟
امام واقدی سے اس کاحال
سنتے ہیں :
ھمام نامی غلام تھا، جو
سرشام جو کی کچھ روٹیاں بناکر خیمے میں رکھ دیتے، مغرب کی نماز کے بعد سیدنا خالد
رضی اللہ عنہ انہی پر افطار کیا کرتے تھے، لیکن اب کی بار تین راتیں گذر گئیں،
لیکن سحر وافطاری کیلئے کچھ ندارت!
اس پہ سیدنا خالد رضی
اللہ عنہ نے ھمام کو بلاکر پوچھا: بیٹے اپ کے پاس افطاری کیلئے کچھ بھی نہیں؟
غلام نے عرض کیاحضور
وہی معمول کا زاد راہ تو ہر دن مقرر جگہ پر رکھتاہوں، اور یہی سمجھتارہاہوں کہ آپ
تناول فرماتے ہوں گے!
چوتھے دن ھمام نے حسب
معمول جو کی روٹیاں بناکر مقررہ جگہ پر رکھ دی اور چھپ کر دیکھنے لگے کہ آخر کون
انہیں لیجاتاہے؟ تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کتا اس زاد سفر کو لئے قلعہ
کیطرف بھاگا جارہاہے، ھمام چپکے سے اس کے پیچھے ہو لیے، دیکھا تو وہ کتا قلعہ سے
نکلنے والی پانی کی کاریز سے قلعہ کے اندر چلاگیا، خادم نے آکر ساری صورتحال بیان
کردی تو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے نے خود جاکر وہ جگہ دیکھی ، جگہ کا
دیکھنا تھا کہ زبان مبارک پر بے ساختہ تکبیر کے زمزمے گونجنے لگے، فرمایاکہ اللہ
کی مدد آگئی! ساتھیوں کو جمع کیا اور
فرمایا:
" میں نے اسی کاریز کے
راستہ قلعہ میں داخل ہونے کا ارادہ کرلیاہے، اور تم میں سے صرف ایسے سو آدمیوں کا
طلبگار ہوں، جو اپنی جانیں مالک حقیقی کے نام کرچکے ہوں! اس
کے بعد سیدنا خالد نے کمانڈر انچیف سیدنا عیاض بن غنم رضی اللہ عنھما سے اجازت
مانگی، اور کہا کہ آپ بھی تیار رہیں، جب تکبیرکی بلند ہوتی صدائیں آپ کو سنائی
دینے لگیں تو ہماری مدد کیلئے آجائیے۔ تو انہوں نے اجازت دی اور فرمایا اللہ کا
نام لیکر چلتے رہو،میں پوری تیاراور تکبیر کے زمزموں کا منتظر ہوں"۔
اس کے بعد جانثاروں کا
یہ قافلہ اسی کاریز میں سے قلعہ میں داخل ہونے لگا، سب سے پہلے سیدنا خالد، دوسر
نمبر پرسیدنا عامر بن الاحوص پھرسیدنا حذيفة بن ثابت، ان کے بعد عمران بن بشر رضی
اللہ عنھم یکے بعد دیگرے اسی آدمی داخل ہوگئے، البتہ جو حضرات بدنی اعتبار سے
زیادہ صحت مند تھے، وہ داخل نہ ہوسکے، اور نخل تمنائے شہادت کے ثمر بار نہ ہونے پر
افسوس کرتے رہے، اسی دوران ان پیچھے رہنے والوں میں ایک جانباز نے محنت کرکے کاریز
کے اندر سے ایک بڑا پتھر اکھاڑ پھینکا، جس سے وہ مزید کشادہ ہوگئی تو یہ بیس حضرات
بھی قلعے میں داخل ہوگئے، دعائیں گویاکہ تاثیر کے ہاتھوں بک چکی تھیں، تکبیر کی
صداؤں کے ساتھ فتح و نصرت کی ہوائیں چلنے لگیں، سیدنا عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ
تکبیر سنتے ہی قلعہ کیطرف روانہ ہوئے تو ناقابل تسخیر سمجھنا جانے والا بیزنطینی
قلعہ کا دروازہ چوپٹ تھا، رات کے اندھیرے میں تلواریں چلیں، جان بچانے کیلئے
بھاگتےکئی بیزنطینیوں کی گردنیں اپنی ہی تلواروں کا نشانہ بنیں، ملکہ مریم دارا کو
جب یقین ہونے لگا کہ مضبوط فصیلیں، غیر متزلزل ایمان والوں کی ضربوں کی تاب نہ لا
سکیں گے، تو اندھیرے میں وہاں کھسک گئیں اور جاکر رومیوں کے ہاں پناہ لی، ادھر
بیزنطینوں کو جب اپنی ملکہ کے فرار کی خبر ملی تو ان حوصلے جواب دے گئے، اور چیخ
چیخ کر رحم کی درخواستیں کرنے لگے، نبی رحمتﷺ کے بہادر جاثنار کہاں شکست تسلیم
کرنے اور کمزوری کا اعتراف کرنےوالوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں؟ وہ تو بس اس کا سر کچلتے
ہیں، جس میں کبر ونخوت کی ہوا بھری ہو، فورا تلواریں روک دی گئیں، اور ہارے ہوئے
لشکر کو ایک میدان میں جمع کرکے کمانڈر انچیف سیدنا عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ
گویاہوئے:
"حق تعالی کی مدد ونصرت
اور صبر کی برکت سے ہم فتحیاب ہوگئے، خداکی قسم اگر کریم رب تعالی نے ہمارے پیارے
محمد عربی کو سراپا رحمت بناکر اھل ایمان کے دلوں کو ان کا پایہ تخت نہ بنایا ہوتا
تو ہم تمہاری نسلیں مٹادیتے، لیکن ہمارے رحیم رب نے غصہ کو پینے اور لوگوں کا معاف
کرنے کاحکم دیاہے، {وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ
وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ}
(آل عمران: 134)
ترجمہ: اور غصہ کو پی
جانے اور لوگوں کو معاف کرنے کے عادی ہیں، اور اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت
کرتاہے"۔
جو دلوں کو فتح کرلے
وہی فاتح زمانہ!
اس کے بعد عام معافی کا
اعلان کردیا، ظاہرہے کہ تلواریں گردنیں فتح کرتی ہیں، جبکہ حسن اخلاق دلوں کو، اور
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ! معافی کا اعلان سننا تھا کہ بیزنطینی جوق در
جوق اسلام قبول کرنے لگے، اور جس نے اسلام قبول نہ کیا اس کو اگلے سال جزیہ
اداکرنے کا حکم دیاگیا، بشرطیکہ وہ بالغ ہو، امام واقدی رحمہ اللہ کے مطابق حضرات
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فتح کے بعد بارہ دن تک یہیں قیام پذیر رہے، مسجد کی
بنیاد رکھی، پھر صعصعة العبدي کو یہاں کا گورنر بناکر جبکہ پانچ سو دیگر اھل ایمان
کو امور سلطنت حوالہ کرکے واپسی کی راہ لی! رضی اللہ عنھم!
میدان جنگ میں داد
شجاعت دیتے ہوئے لیلائے شہادت سے ہم آغوش ہونے والے(صحابہ و تابعین کرام رضی اللہ
عنھم) لشکر محمدی ﷺ کے ستایس جانباز یہی ایک طرف میں محو استراحت ہیں، عثمانیوں نے
ان کے خوابگاہوں کے متصل ایک خوبصورت جامع مسجد بھی بنا رکھی ہے!
شہداء کی مبارک آرام
گاہوں کے اوپر تختی لگی ہوئی ہے، جس پر ترکش زبان میں تمام راہروان منزل کے نام
کندہ ہیں، یہاں سے پھوٹنے والی خوشبوئیں جہاں زیارت کیلئے حاضر ہونے والوں کے قلب
وجگر کو معطر کردیتی ہیں، وہیں اس عظیم قافلہ کے صدق و صفا کی شجاعتوں کی داستانیں
بھی سناہوئے سسکتی امت مسلمہ کو جھنجوڑتی بھی ہیں، گویاکہ شاعر مشرق کے لہجہ میں
کہ رہی ہوں:
تمدن آفریں خلاق آئین جہاں
داری
وہ صحرائے عرب یعنی
شتربانوں کا گہوارا
سماں ' الفقر فخری' کا رہا شان امارت میں
بآب و رنگ و خال و خط
چہ حاجت روے زیبا را
گدائی میں بھی وہ اللہ
والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر
سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ
سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں
بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ
کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر
ہے وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت
ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار ،
تو ثابت وہ سےارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف
سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے
ہم کو دے مارا!
26. 09. 2021
Comments
Post a Comment