Turkish scholarship ترکش سکالر شپ
![Image](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhoCPyFVJ2S95OtVWAncWI99tqlpvabXgoDrGyzubpr1_gcc54wCaLRYtGrcvNdJbohDUgLk-sBgPXMzrYhSRx9tcDalIMklZZOIi6nDuYe4y34sz8Xiy3YapVTsHD54VwkoE4pj4IH_QPSJUqhiJNl4TYD94KHw_mMUBW9njopvFw47cTxGDh_yijP/w289-h189/indir.png)
اختلافی مسائل کے ذکر وبیان میں ایک افسوسناک رویہ یہ اختیار کیا جاتاہے کہ اپنی ذاتی رائے اور فہم personal approach کو نہ صرف دین کاحصہ قرار دیا جاتاہے بلکہ اُس کو ایک مُقدس عنوان دیکر فریق مُخالف کو براہ راست اُس مقُدس عنوان کے مُقابل لاکر کھڑا کیا جاتاہے، پھر ظاہرہے کہ اُس کے جو افسوسناک نتائج برآمد ہوں گے وہ کِسی سے مخفی نہیں!
مثلا اکثر سلفی
حضرات ہم مُقلدین بالخصوص حضرات حنفیہ کے
بارے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ وہ حدیث کے مُقابلہ میں قیاس(Analogy)
کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، یا حدیث کی مُخالفت کرتے ہیں۔
حالانکہ دُرست تعبیر یہ تھی کہ حدیث شریف سے جو کُچھ ہم سمجھتے ہیں، یا فلاں فلاں
عالم سمجھا ہے، یا قُرآن کریم کی فلاں آیت کی جو تفسیر ہم سمجھتے ہیں، فریق مُخالف
اس حدیث یا آیت کا مطلب اُس سے ہٹ کر سمجھتاہے۔
اِسی طرح اکثر شیعہ حضرات بھی ذاتی سمجھ اور رائے کو
حبِ اہلِ بیت ( سلام اللہ علیھم) کا نام دیکر فریق مُخالف کی رائے کی ایسی تعبیر
کرتے ہیں کہ اِس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ شاید فریق مُخالف کا مُقابلہ براہِ راست
اہلِ بیت سے ہے۔
اِسی طرح بعض بریلوی حضرات اپنی فہم اور رائے کو عشقِ
رسالتمآب ﷺ کا نام وعنوان دیکر فریقِ مُخالف کو اِس طرح سے پیش کرتتے ہیں کہ
گویاکہ اُن کے دِل نعوذباللہ عشقِ رسالت ﷺ سے خالی ہیں۔ یہی حال اُن بعض دیوبندی
حضرات کا بھی ہے جو اپنی رائے اور ذاتی فہم کو توحید اور حُبِ صحابہ کا مقدس عنوان
دیتے ہیں۔ بلکہ اب تو نوبت بایں جا رسید کہ جن لوگوں کو قانونِ قُدرت نے یزید جیسے ظالم کے دفاع کی سزا دی ہے، وہ اُسے
بھی " صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دفاع" جیسا مُقدس عنوان دیتے ہیں!
اس
Biased approach کا اُمت کو نقد اور دستی نقصان یہ
اُٹھانا پڑتا ہے کہ مُختلف فرقوں سے محبت اور تعلق رکھنے سادہ لوح عوام بلکہ بعض علماء
تک کو اُن کا فریقِ مُخالف اُن کی فہم اور رای
کی بجائے، ہتھیار باندھے براہِ
راست توحید، رسالت ﷺ ، مُحبتِ اہل بیت عظام، عظمتِ صحابہ کرام - رضی اللہ عنھم -
اور حدیث نبوی کے مقابلہ میں کھڑا نظر آتا ہے۔ اورظاہرہے کہ جو شخص ان مُقدس
عنوانات اور شخصیات کے مُقابلہ ہو، اُس کے بارے پھر کیا جذبات ہوتے ہیں؟ مُحتاجِ بیاں
نہیں! پھر مُعاملہ تنقیص، گالی، اور توہین
سے ہوتے ہوئے گولی اور قتل تک پہنچ جاتاہے!
( والی اللہ المشتکی)
دُوسری بات:
اہل سنت والجماعت کا اجماعی موقف یہ ہے کہ جنگ صفین اور جمل میں حق پر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ تھے، جبکہ دیگر حضرات اجتہادی خطا پر تھے۔
امام نووی لکھتے ہیں:
و مذهب أهل السنة و الحق إحسان الظن بهم و الإمساک
عما شجر بينهم و تاويل قتالهم، و إنهم مجتهدون متأولون لم يقصد و امعصية ولا محض
الدنيا، بل اعتقد و اکل فريق أنه المحق و مخلافه باغ فوجب قتاله لير جع الی أمر
الله، وکان بعضهم مصيباً و بعضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ لأنه بإجتهاد و لمجتهد
إذاأ خطألا إثم عليه وکان علی رضی الله عنه هو المحق المصيب في ذلک الحروب هذا
مذهب أهل السنة و کانت القضايا مشتبة حتی أن جماعة من الصحابة تحيرو ا فيها
فاعتزلو االطائفتين ولم يقاتلو اولو تيقنو االصواب لم يتأ خرواعن مساعدته.
اب اِس موقف پہ بعض حضرات یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ غیر
صحابی کو اس بات کا کیا حق ہے کہ وہ کسی صحابی کے اجتہاد کو نادرست قرار دے۔یا اُن
کو خطاء اجتہادی کا مرتکب قراردے کیونکہ یہ
بھی ایک طرح کی بے ادبی ہے۔ کیونکہ غیر صحابی کو صحابی کے افعال کو جج کرنے کا کوئی
حق نہیں۔
یہ اپروچ بظاہر جاذب اور خوشنما ہے۔ (اور مُجھے اُمید ہے کہ تمام ورنہ اکثر حضرات نے اِسے نیک نیتی، خُلوص اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی محبت سے سرشار ہوکر اپنایا ہوگا، جس پر اللہ تعالی ان کو اچھا بدلہ عطافرمائے۔) لیکن فقہ اور اجتہادی قواعد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ بلکہ کسی حدتک اس میں دقیق علمی اپروچ کی بجائے جذباتیت کا عُنصر زیادہ غالب نظر آتا ہے۔ کیونکہ یہاں پر بات حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو جج کرنے کی نہیں اور نہ ہی کسی کو اس کا حق ہے۔ بلکہ جو قول یا فعل اُن حضرات سے صادر ہوا ہے، اُصول کی روشنی میں اُس کی فقہی تکییف بیان کرنی ہے۔
دُوسرے الفاظ میں
یہ کہنا ہے کہ چونکہ فقہ اور اُصول کے لحاظ سے ہر عاقل بالغ اور مکلف شخص کے
قول یا فعل کی ایک Legal position / قانونی
حیثیت ہوتی ہے۔ یعنی ہر عاقل بالغ اور مکلف شخص کا قول یا فعل اثباتی طرف میں ہے تو فرض، واجب، سنت، مُستحب یا
پھر مُباح میں سے ایک اور اگر ممنوعات میں سے ہے
حرام، مکروہ تحریمی، یا تنزیہی میں سے کُچھ نہ کچھ نہ ہوگا۔ لہذا اُن نفوس
قدسیہ کے کئے ہوئے کسی کام یا کہی کسی
ہُوئی بات کی ہمیں فلاں فلاں اُصول کی روشنی میں
Legal status یہ یا قانونی پوزیشن/ حیثیت معلوم ہورہی ہے۔
اور اگر اسی جذباتی سٹیٹمنٹ کو قبول کرتے ہوئے کسی قول
وفعل کا Legal status متعین
کرنا بے ادبی کہلائے تو پھر تو سیدنا
ومولنا رسول اللہ ﷺ کے کسی فعل یا قول کے بارے یہ کہنا کہ یہ امر ارشادی ہے، وجوبی نہیں( بطور
verdict of court نہیں)، یا منسوخ قراردینا وغیرہ بلکہ اِس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر خود
ذاتِ باری تعالی کے ارشادات جو قُرآن کریم او رقدسی احادیث میں وارد میں ہیں، کی
تکییف کرنا اُس سے بھی بڑی بے ادبی ہوگی!
اِس لئے ذاتی رائے personal approach / کو مُقدس عنوان دینے کی بجائے اپنی رائے اور فہم کے طور پر پیش کیا جائے، اور پھر فریق مخالف کو اُسی تناظر میں دیکھا اور سمجھاجائے۔
اِسی طرح ایک اہم نکتہ مرکزۃ المرکزیات - یا ترجیحات کا تعین کا بھی ہے۔ یعنی شریعت نے جِس امر کو جو قدر ومنزلت عطا کی ہے، اُس کو امر - بطور دین اپنانے یا لوگوں کو اُس طرف بُلانے اور مخالفین پر تنقید کرنے میں اُسی قدر منزلت کو پیش نظر رکھاجائے۔ امام شاہ ولی اللہ اور علامہ کشمیری اِس کو مراتب الاحکام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اِس لئے انگھوٹی بچانے کیلئے بازو اور مکھی بچانے کیلئے اُونٹ کی قُربانی دینا انصاف اور عقل دونوں سے ہم آہنگ نہیں۔
واللہ اعلم
متفق استاد
ReplyDeleteسبحان اللہ اللہ کریم پوری امت کو ایکدوسرے کا احترام کرنا نصیب فرمائے اور راہ حق پر قائم رکھے آمین
DeleteAmeen yarab jazakallah khaira
DeleteOctober 2022 at 08:12
ReplyDeleteسبحان اللہ اللہ کریم پوری امت کو ایکدوسرے کا احترام کرنا نصیب فرمائے اور راہ حق پر قائم رکھے آمین
Amin yarab jazakallah khaira
DeleteJazakallah khaira Habibi ❣️
ReplyDelete