Turkish scholarship ترکش سکالر شپ
![Image](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhoCPyFVJ2S95OtVWAncWI99tqlpvabXgoDrGyzubpr1_gcc54wCaLRYtGrcvNdJbohDUgLk-sBgPXMzrYhSRx9tcDalIMklZZOIi6nDuYe4y34sz8Xiy3YapVTsHD54VwkoE4pj4IH_QPSJUqhiJNl4TYD94KHw_mMUBW9njopvFw47cTxGDh_yijP/w289-h189/indir.png)
جنازہ کے بارے مسنُون تو یہی ہے کہ جلد از جلد تکفین
اور تدفین کرلی جائے، لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں اگر کسی کسی ضرورت، حاجت اور
مصلحت کی بُنیاد پر تاخیر کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ بلکہ یہ خلافِ سُنت یا زیادہ سے زیادہ مکروہ ہوگا، جِس پر سوشل میڈیا جیسے عوامی فورم
پر لمبی چوڑی پوسٹیں لکھنا نامُناسب ہی
شرعا بھی غلط ہے۔ کیونکہ شریعت مُطہرہ ہی نہیں بلکہ دُنیا کے قاُنون میں ہر ہر
حُکم کا ایک خاص مرتبہ اور مقام موجود ہے، لہذا کسی بھی کام کو بطور دین اپنانے،
کسی کو حُکم دینے، یاکسی کام سے روکنے میں
اُس مرتبہ کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ کسی چھوٹے
گُناہ کے ارتکاب پر فاسق اور فاجر کا فتوی لگانا بھی ایسا ہی ظلم ہے جیسے
روڈ پر اور سپیڈ میں گاڑی چلانے پر پھانسی کی سزا دینا، یا کسی کو اشارہ توڑنے پر
عمر قید کی سزا دینا۔
نیز نکیر کرنے کیلئے بُنیادی شرطوں میں ایسے ایک یہ ہے
کہ وہ مُنکر قطعی حرام ہو، اور اُص کی حُرمت نصِ سے ثابت سے ہو، ؤ؛ مشہور فقہی
قاعدہ ہے:
لا ينكر المختلف فيه، وإنما ينكر المجمع عليه۔
( یعنی جِس مسئلہ میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہو، اُس پر نکیر نہیں کی جاسکتی ، یعنی
مرتکب کی طرف فاسق، فاجر یا اِس کی بات کی نسبت نہیں کی جاسکتی، ہاں تنہائی میں
اپنائیت سے نصیحت کرلی جائے تو وہ ایک الگ بات ہے)
امام غزالی لکھتے ہیں:
أن
يكون المنكر معلوماً بغير اجتهاد، فكل ما هو محلٌ للاجتهاد فلا حسبة فيه.
"إحياء علوم الدين" 2/416
علامہ دواني لکھتے ہیں: "يشترط
كي يتغير المنكر أن يكون المنكر مجمعاً على تحريمه، أو يكون مدرك عدم التحريم فيه
ضعيفاً" "الفواكه الدواني" 2 /392
سلف صالحین- رضی اللہ عنھم - کی اِن عبارات کو سابق
مُفتی اعظم پاکستان مُفتی محمد شفیع عثمانی - رحمہ اللہ - نے کیا ہی خُوبصورت تعبیر
بخشی ہے، چُنانچہ حضرت لکھتے ہیں: جِس بات میں ائمہ اربعہ کا اختلاف ہو، وہاں کوئی
بھی جانب مُنکر( باطل) نہیں ہوتی، اور جہاں مُنکر نہ ہو وہاں نکیر کرنا، خُود
مُنکر ہے۔
اِسی طرح اصلاح کا اصل طریقہ کار بھی یہی ہے کہ تنہائی
میں اُس فعل پر تنبیہ کی جائے۔ عوام الناس
کے سامنے اور سوشل میڈیا پر اصلاح کے نام پر پگڑیاں اُچھالنا کسی طرح بھی اصلاح نہیں
کہلاسکتی۔ اگر پھر ضرورت ہو تو کسی کا نام لئے بغیر ایک جنرل بات کی جائے۔
علامہ ابن رجب
حنبلی لکھتے ہیں: “وكان السلف إذا أرادوا
نصيحة أحد وعظوه سراً؛ حتى قال بعضهم: “من وعظ أخاه فيما بينه وبينه فهي نصيحة،
ومن وعظه على رؤوس الناس فإنما وبخه
( سلف صالحین تنہائی میں لوگوں کو نصیحت کیا
کرتے تھے، حتی کہ بعض اہلِ علم نے فرمایا: تنہائی کی نصیحت نصیحت ہے اور لوگوں کے
سامنے نصیحت نصیحت نہیں بلکہ وہ تذلیل اور توبیخ کے زُمرے میں آتی ہے)
مقاصد شریعت کی
سمجھ۔
دُوسری بات یہ ہے کہ
مقاصد شریعت (
Objectives of Shari'ah law) کی تین قسمیں ہیں ، ضروریات (Necessities)
حاجیات (human needs) اور تحسینیات (embellishments)
پہلی قسم کیلئے کسی حرام کا بھی ارتکاب کیا جاسکتا ہے،
جیساکہ جان بچانے کیلئے خنزیر یا شراب کا استعمال وغیرہ ، جبکہ دُوسرے درجہ کی
ضرورت کیلئے حرا م قطعی کا ارتکاب تو نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب وہ ضرورت جیسی بن
جائے تو پھر کسی ایسے امر کا ارتکاب کیا جاسکتاہے، جس کے عدم جواز کا حُکم اجتہاد
سے معلوم ہو، بعض فقہاء نے بیع الوفاء کی مثال دی ہے ، جبکہ تیسرے درجہ تحسینیات کیلئے کسی حرام یا
عدم جواز کا ارتکاب تو نہیں کیا جاسکتا، لیکن کوئی غیر مُستحب، یا امر مندوب کی
خلافِ ورزی کی جاسکتی ہے۔
جلدی تدفین کا حکم
اب آتے ہیں اِس طرف کہ
مُتعدد احادیث مُبارکہ میں تدفین کو جلدی کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اُس کی
تکییفِ فقہی ( Legal status
) کیا ہے؟
تو اِس بارے
تمام فقہاء کرام اتفاق ہے کہ یہ ایک مُستحب اور پسندیدہ عمل ہے، فرض یا واجب نہیں
( بشرطیکہ میت کے خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو)
چُنانچہ مُشہور حنفی فقیہ امام
بدرالدین العینی - رحمہ اللہ - لکھتے ہیں:
وفيه استحباب المبادرة إلى دفن الميت لكن بعد أن
يتحقق أنه مات، أما مثل المطعون والمفلوج والمسبوت فينبغي أن لا يسرع بدفنهم حتى
يمضي يوم وليلة ليتحقق موتهم، نبه على ذلك ابن بزيزة.
یعنی اِس حدیث میں میت کو جلدی سے دفن کرنے کے استحباب
کی دلیل ہے۔ بشرطیکہ اُس کی موت یقینی طور پر ثابت ہوجائے۔ البتہ جو شخص مطعون،
مفلوج بیہوشی کی حالت میں مرنے والے کے بارے حُکم یہ ہے کہ ایک دن ایک رات سے پہلے
اُن کو دفن کرنے کی اجازت نہیں)
الموسوعة
الفقهية میں لکھا ہے: اتفق الفقهاء على أنه إن تيقن الموت يبادر إلى
التجهيز ولا يؤخر... فإن مات فجأة ترك حتى يتيقن موت
اور نُصوص میں تدفین وتکفین کی جلدی کرنے کی نُصُوص میں
غور وفکر کرنے سے درج ذیل علتیں سامنے آتی ہیں:
اول:
اپنے اعمال کے مُطابق اچھے یا بُرے مقام تک پہنچ جائے۔
دوم : میت میں خراب نہ ہو۔
سُوم: لوگ مشقت میں مُبتلا نہ ہوں۔
پہلی علت تو خیر امر تعبدی ہے، لیکن
دُوسری اور تیسری علت کی بُنیاد پر نُصوص میں غور کرنے سے یہی بات سمجھ آتی ہے کہ یہاں
پر بھی تاخیر کے جواز اور عدم جواز کا مدار دو چیزوں پر ہے، میت خراب نہ ہو اور لوگ مُشقت میں مُبتلا نہ ہوں،
لہذا جہاں یہ دونوں علتیں موجود نہ ہوں وہاں پر جلدی سے تکفین وتدفین بدستور
مُستحب رہے گی، لیکن یہ عمل کوئی ایسا حرام یا ناجائز نہیں ہوگا کہ اُس کو بُنیاد
بناکر کسی عام مُسلمان پر تنقید کی جائے چہ جائے کہ ایک ایسے خانوادہ کو نشانہ بنایاجائے جِس نے
ساری زندگی اِس اُمت کی بے لوث خدمت کی ہے اور کررہاہے۔ دُوسری طرف جب تک کوئی شرعی
قطعی حُکم نہ ٹوٹتا ہو یا شریعت کے اُصولِ مسلمہ کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو وہاں
لوگوں کے جذبات اور عصری اقدار کا خیال رکھنا ہی سُنت ہے۔ سُنت مُطہرہ میں اِس سینکڑوں
مثالیں موجود ہیں۔ مثلا حجۃ الوداع کے موقع پر دو نوجوان ( جو زکوۃ لینے کے اہل نہیں
تھے) آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہُوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ہمیں بھی ہمیں زکوۃ کے
مال میں سے کُچھ عطا کیجئے، اِس پہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: إِن شِئْتُمَا
أَعْطَيْتُكُمَا وَلا حَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ وَلا لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ( مسند احمد) ( یعنی اگر تُم چاہتے ہو تو میں یہ مال تُمہیں
دیدوں گا، لیکن شرعی حکم یہ ہے کہ صرف غریبوں کاحق ہے، امیر اور کمانے کے قابل
لوگوں کا نہیں)
اسی طرح ایک شخص نے اپنے قرضہ کے سلسلہ میں آپ ﷺ ساتھ
کُچھ سختی کی اور صحابہ کرام نے اُس کی خبر لینے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
اِسے بولنے دو، کیونکہ جس کا حق ہو، وہ اپنے حق کا اظہار بھی کرسکتا ہے۔ ایک موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیھا
ووزوجھا وابیھا کو مخاطب کرکے فرمایا: يا
عائشةُ أَمَا كان معكم لَهْوٌ ؟ فإنَّ الأنصارَ يُعْجِبُهُمُ اللَّهْوَُ ( شادی کا
موقع ہے کوئی کھیل کُود، شعر وشاعری کا بندوبست نہیں کیا؟ انصار کو یہ چیزیں بڑی اچھی لگتی ہیں۔ اور ایک
دفعہ فرمایا کہ میرا دل چاہتاہے کہ لمبی نماز پڑھاؤں لیکن بچوں کے رونے کی آواز
سُنتاہوں تو اس لئے مُختصر نماز پڑھاتا ہوں کہ اُس کے بچے کی ماں کے دِل پر کیا
گُذررہی ہوگی؟؟
اِس لئے اہلِ علم سے ادب واحترام کے ساتھ گُذارش ہے کہ شریعت کو تھانہ یا عُقوبت خانہ (torture
cell) نہ
بنائیں، عربی یا اُردو فقہی عبارات کو نُصوص قطعی کا درجہ دینے کی بجائے جن دلائل پر اُن کی بُنیاد ہے وہاں تک پہنچنے کی
کوشش کیجئے، اور احکام شریعہ کے سلسلہ میں اُن کے مراتب کو سامنے رکھ کر سختی یا
نرمی کی جائے۔
جزاک اللہ خیرا
ReplyDelete